0

۔،۔سفرِ نور۔اے آراشرف۔،۔

0Shares

۔،۔سفرِ نور۔اے آراشرف۔،۔
خانہ کعبہ کی تاریخ۔اس سے قبل کہ میں سفرنور کی تفصیلات بیان کروں میں چاہوں گا کہ خانہ کعبہ کی تاریخ کے بارے میں بھی قارئین کی معلومات کیلئے مختصرخاکہ بھی تحریر کردوں۔خانہ کعبہ کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے یہ وہی کعبہ ہے جسکی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنے کی تمناحبیب خدا سرور کائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی تھی۔اللہ تعالیٰ نے نماز ظہرین کے دوران مدینہ منورہ میں مسجدقبلتین میں قرآن پاک کی ان آیات کا ان الفاظ میں نزول فرمایاکہ۔یہ تمارے منہ کا بار بار آسمان کی جانب اُٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔لو ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو۔مسجد حرام خانہ کعبہ کی طرف رخ پھیر دواب یہاں کہیں تم ہواسی جانب منہ کر کے نماز پرھا کرو،،۔اگر خانہ کعبہ کی تاریخ کے بارے میں بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام کو ترک اولی کی بنا پر جنت سے بیدخل کیا گیا تو آپؑ نے بارگاہ خداوندی میں استدعا کی کہ میں طواف بیت المعموراور تسبیح ملائکہ کی آواز سے محروم ہو گیا ہوں۔تو جواب قدرت آیا کہ اے آدمؑ جاؤ جہاں ہم نشان بتائیں وہاں کعبہ بنا کراُسکے ارد گرد طواف بھی کرو اور حضرت جبرائیل بھی رہبری کیلئے اُنکے ساتھ چل پڑے اور اُنہیں وہاں لائے جہاں سے زمین بنی تھی یعنی جس جگہ پر جھاگ پیدا ہوا تھااور پھر وہی جھاگ پھیل کرپوری زمین کی بنیاوڈال دی اور حضرت جبرائیل نے اپنا پر مارکر ساتویں زمین تک بنیاد ڈال دی جسکو ملائکہ نے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بھرا یعنی۔کوہ نودی۔کوہ لبنان۔کوہ طور۔کوہ حرا اورطور زیتا۔بنیادیں بھر کر چاروں جانب دیواریں اُٹھا دیں اسطرح آدمؑ وہاں نماز پڑھتے رہے اور طواف بھی کرتے تھے طوفان نوحؑ تک کعبہ اسی حالت میں رہاپھر وہ عمارت تو آسمان پر اُٹھا لی گئی اور کعبہ کی جگہ ایک اونچے ٹیلے کیطرح رہ گئی مگر لوگ پھر بھی برکت کیلئے وہاں آتے تھے۔ذہن میں رہے خانہ کعبہ بالکل بیت المعمورجو آسمان والوں کیلئے طواف وتسبیح کا مرکز ہے اسطرح خانہ کعبہ زمیں والوں کیلئے بالکل بیت المعمورکے نیچے راہنمائی کا مرکز ہے۔ مروی ہے کہ اسے سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا پھر آدمؑ نے اُنکے بعد اُنکے بیٹے حضرت شیثؑ نے اور پھرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کی وہی کعبہ جس کے بارے میں قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ۔۔اور یاد کروحضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اُٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے کہ اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمتقبول فرما لے تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والاہے۔۔ یہ وہی کعبہ ہے جس کے بارے میں سورہ حج میں ارشاد رب کائنات ہوتاہے کہ۔۔یادکرو وہ وقت جب حضرت ابراہیمؑ کیلئے اس گھر،خانہ کعبہ)کی جگہ تجویز کی تھی اس ہدائت کے ساتھ کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرواور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام ورکوع وسجودکرنے والوں کیلئے پاک رکھو۔۔اشتیاق وتڑپ۔آج وہی کعبہ میری نظروں کے سامنے تھا جسکی زیارت ودیدار کی تمنا میری روح و وجسم اور دل کی دھڑکنوں کی ہر ہر رگ میں سمائی ہوئی تھی اور میں آج اپنے آپ کو دنیا کا سب سے امیر ترین اور خوش قسمت ترین بندہ تصور کررہا تھامگر اس خوش بختی کے لمحات ایسے تھے کہ جن جن دعاؤں اور مناجات کو اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہتا تھاوہ اس کفیت کے ذہن میں آتے ہی دل سے وہ ہر ہر دعا محو ہو چکی تھی مگر مجھے پختہ یقین ہے کہ وہ قادر مطلق سب دلوں کے حالات سے پوری طرح واقف اورجانتا ہے اور ضرور میری دلی دعاؤں کو قبول فرمائے گا۔میں اس سال حج کا ارادہ رکھتا تھامگر اس ارادہ کی تکمیل میں میرے ہم زلف اور نہائت شفیق بھائی جناب شاہد جمیل جعفری نے میری بہترین راہنمائی فرماکرمیرے ارادہ کو تقویت بخشی اور رابطہ کاروان حسین کے سالار جناب عرفان جعفری سے کرایا جو اُنکے پرانے مہربان تھے مجھے میرے احباب نے نصیحت کی تھی کہ جب۔خانہ خدا۔پر پہلی نظر پڑے تو اُس وقت جو بھی دعا مانگو گے مستجاب ہو گی مگر میں سب دعائیں بھول چکا تھااورمیری نظروں میں صرف اور صرف دیدار۔خانہ کعبہ۔ سمایا ہوا تھااُسی جذبہ و تڑپ نے مجھے ہمت دی کہ میں بھی طواف کی صف میں شامل ہوگیا مگر میری کمزوری اور ضیفی اور فرزندان توحید کے جم غفیرنے پہلے ہی طوافی چکرنے مزید چھ چکروں کی سعادت سے محروم کر دیا اور مجھے ویل چیر کی سہولت لیکر پہلی فلور پرمنتقل ہونا پڑااور وہاں طواف کے بعد دو رکعات نماز ادا کی جو مقام ابراہیمؑ کے پاس ادا کرنا ہوتی ہے مگر یہ سعادت صرف مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے یا پھر جم غفیر کی ٹھوکروں کا نشانہ بن کراپنے خالق حقیقی سے ملنا پڑتا ہے اس کے علاوہ صٖفاو مروہ کی سعی کے سات چکرپورے کرنے کے بعدتقصیر یعنی تھوڑے سے بال تراشنے کے بعدانسان احرام کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاتا ہے یوں حج کا پہلا مرحلہ یعنی۔عمرہ تمتع۔کا فریضہ ادا کرنے کے بعد حج کے دوسرے مرحلے کی جانب بڑھتا ہے۔ حج بیت اللہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر صاحب اسطاعت بالغ مسلمان پر زندگی میں ایک بارکرناواجب ہے۔میں اس لحاظ سے اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ اُسنے مجھ جیسے ضعیف اور بیمار کواس اہم سعادت کیلئے منتحب فرما کر احسان عظیم فرمایا وہ جو کہتے ہیں خالق کائنات اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے مجھ جیسے کمزور ونحیف کوحج کی سعادت کا موقع فراہم کیا۔میں حصوصی طور پراپنے قافلہ کے روحانی راہنما حجت السلام سید سبطین حسین کاظمی کا تہہ دل سے مشکور ہوں جہنوں نے قدم قدم پر ہماری بہترین راہنمائی فرماکر حج کے واجبات ادا کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔میں قافلہ سالارجناب عرفان جعفری اور عدنان جعفری کے علاوہ جناب علی مبشر،سیدتوحسین حیدر، سید اظہرعباس،رانا الطاف،جناب عنصر مہدی،جناب جمیل بھٹی،چوہدری اکبر،جناب عدیل علوی، جناب ایمان اللہ،جناب وحیدعاشق،جاب محمد یاسر اور دیگر قافلہ میں شریک برادران وخواہران کا بھی شکر گزار ہوں جہنوں نے فرائض کے ادا کرنے میں میرے لئے آسانیاں پیدا کیں۔فارسی کے مایہ ناز شاعر اور فلاسفر نے بالکل درست کہا تھا کہ۔در جوانی توبہ کردن سیوا پیغبری۔کہ جوانی کی عبادات پیغمبروں جیسی ہیں میں نے اس روحانی سفر میں یہی نتیجہ احذ کیا ہے کہ حج جیسی مشکل ترین عبادت جوانی ہی میں ادا کرنی چاہییں تھیں تاکہ جس تشنگی کو میں محسوس کرتاہوں اُس سے شاید بچ جاتااور جن مقامات مقدسہ کی زیارت سے محروم رہا ہوں اُن تمام مقدس مقامات کی زیارت آسانی سے کر لیتابہرحال میں اپنے رب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں جس نے مجھ جیسے کمزور اور نحیف بیمار کو حج جیسی سعادت سے سرفراز فرمایا۔۳جون دوہزار چوبیس کی وہ مبارک شب جب میں سفرِنور کیلئے تقریباَ َ سات بجے اپنے بیٹے علی حسن اور بیوی فرہ فاطمہ اشرف کے ہمراہ فرانکفرٹ ایرپورٹ کی جانب روانہ ہوئے میرے لئے یہ خوش بختی اورسعادت کے ایسے لمحات تھے جہنیں میں لفظوں کا زیور پہنانے سے قاصر ہوں بس دل و دماغ میں ایک ہی تمناموجزن تھی کہ میں جلد از جلداپنے پروردرگار کے گھر کی زیارت کا شرف حاصل کر سکوں۔۴جون کو جب میں جدہ ایر پورٹ پہنچا تو میری کفیت اُس عاشق کی تھی جومحبوب کے وصال کی تڑپ میں سب کچھ بھول چکا ہومگرمحبوب کے دیدار کے لئے احرام باندھنے کی شرط کو پورا کرنالازم تھا اور میرے پاس احرام نہیں تھاجسے مہیا کرنا قافلہ سالار کی ذمہ داری تھی کیونکہ ایرپورٹ سے ہی احرام باندھ کر مکہ روانہ ہونا تھا یہ ایک شرعی پابندی بھی تھی مگر میرے پاس احرام نہیں تھا جو قافلہ سلار جناب عرفان جعفری نے مجھے دینا تھا فون پر رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ خود ہی اس مشکل کا حل تلاش کرنا ہو گابہرحال کچھ تگ ودو کے بعد ایرپورٹ سے احرام حاصل میں کامیاب ہو گیااور ایر پورٹ سے احرام باندھااور کافی انتظار کے بعدجناب عرفان جعفری نے ایک شخص کو میری راہنمائی کیلئے بھیجا جس نے میرا سامان ایک ٹرالی میں رکھا اور دوڑ سے ایک بس کی نشاندہی کی اور مجھے چھوڑ کر غائب ہو گئے بہرحال آخرکار اپنی منزل انجم ہوٹل پہنچ گئے عارضی طور پر مجھے جس کمرے میں منتقل کیا گیا اُسمیں پہلے سے تین افراد چوہدری اکبر،جناب ایمان اللہ اورجناب وحید عاشق اور چوتھامیں ان سب نے مجھے خوشی خوشی اپنی بزم میں قبول کر لیامگر یہ رفاقت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی اور مجھے اور جناب وحید عاشق کو دوسرے کمرے میں منتقل ہونا پڑا مگر وہاں بھی چار کا عدد برقرار رہاجس میں جناب وحید عاشق اورجناب عبدل احدبرطانیہ سے میں جرمنی سے اور جناب علی مبشر لاہور پاکستان سے فریضہ حج ادا کرنے آئے تھے ہوٹل اور ہمارے کمرے کا ماحول انتہائی خوشگوار تھااگرچہ میں اور جناب وحید عاشق تقریباََ ہم عمرہی تھے مگر جناب علی مبشر اور جناب عبدل احدماشاء اللہ دونوں نوجوان تھے جو حقیقناََ حج کی تمام تر سعادت سے فیضیاب ہو رہے تھے اور بھی مدد کیلئے ہمہ دوش رہتے تھے اور اُنہیں ہر نماز خانہ خدا میں ادا کرنے کا شرف حاصل رہا جس سے ہم اپنی کمزوری اور ضیفی کی بناپر محروم رہے اُمید ہے اللہ ہماری اس کوتاہی کو ضرور معاف فرمائے گابہرحال انجم ہوٹل میں وقت بہت خوشگوار ماحول میں گذرا۔
عمرہ تمتع
۹جون یعنی تین ذی الحجہ بروز اتوار ہم قبلہ مولانا حجت السلام جناب سبطین کاظمی کی قیادت میں۔عمرہ تمتع۔کی ادائیگی کیلئے انجم ہوٹل سے قافلہ کی صورت میں تلبیہ یعنی۔لَبیَکَ اللھُمَ لبیکَ لنیک لا شریکَ لَکَ لبیک ان الحمدَ وَ نعمَتَہ لَکَ وَالمُلک لا شَریکَ لَکَ لَبیکَ۔کا ورد کرتے ہوئے خانہ خدا کا طواف کرنے کی غرض سے ایک نئے جذبے،اُمنگ اور عشق سے سرشارخانہ خدا کی زیارت کیلئے رواں دواں تھے ہر نفس اپنے اپنے ملک وقوم اپنی ثقافت،زبان اور مسلک کیمطابق فرائض حج ادا کر رہا تھا کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کالے کو گورے پرکوئی فضیلت نہ تھی اور نہ ہی کوئی رنگ ونسل کا کوئی امتیاز تھاتمام فرزندان توحیدایک ہی جذبہ وعشق کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں اپنے گناہوں کی بخشش اوراپنی اپنی مرادوں کی قبولیت کیلئے دعائیں مانگ رہے تھے اور میں اپنے دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کشور خداداد پاکستان کی سلامتی اور وطن عزیز میں ہماری قوم وملت کو بھی اسیطرح کی برداشت اور ایک دوسرے پر کفر کا فتوےٰ لگانے کیبجائے دل سے اخترام کرنے کی توفیق عطا فرمئے۔میری کمزوری اور بیماری کی بنا پر قافلہ سالار جناب عدنان جعفری نے میرے لئے ویل چیرکا اہتمام کرنا تھا۔جاری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں