۔،۔ جامع مسجدالمدینہ سٹٹگارٹ میں عظیم الشان فقید المثال جشن عید میلاد النبیﷺ کا انعقاد۔ جاوید اقبال بھٹی۔،۔
٭جرمنی کے شہر سٹٹگارٹ میں جامع مسجدالمدینہ کے زیر اہتمام عظیم الشان فقید المثال جشن عید میلاد النبیﷺ کا انعقادکیا گیا،جشن عید میلاد النبی چرخِ نیلی فام کے نیچے یہی تو ایک بارگاہ جلالت ماب ہے (ولادتِ چراغِ مصطفویﷺ) ٭ہزار بار بشوئم دون بہ مشک و گلاب٭ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی٭چوہدری محمد نواز ہر سال خصوصی طور پر12 ربیع الاول کو یہ خوبصورت اور عظیم الشان میلاد مصطفی کا پروگرام ترتیب دیتے ہیں ٭
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/سٹٹگارٹ۔ جامع مسجدالمدینہ سٹٹگارٹ میں عظیم الشان فقید المثال جشن عید میلاد النبیﷺ کا انعقاد کیا گیا جس کا آغاز تلاوت قرآ پاک سے کیا گیا حضرت مولانا علامہ حافظ شوکتعلی مدنی نے پروگرام کی نقابت کے فرائض سراجام دیئے جبکہ آپ نے میلادالنبیﷺ پر مفصل خطاب فرمایا،، چوہدری محمد احسن تارڑ، حافظ عابد حسفین، حافظ اظہر اور راجہ نعیم نے بھی نعت پیش کی اور خصوصی طور پر یورپ کی جانی پہچانی شخصیت (یورپی ایوارڈ یافتہ) صاجزادہ پیر سید جعفر علی شاہ سواتی نے اپنے بہت ہی خوبصورت انداز اور آواز سے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔ چراغِ مصطفوی کے عمیق مطالعہ سے دلدادگان خطابت شعلہ نوا اور جادو بیان خطیب کا کہنا تھا کہ (ولادت) پر یہ کیا شور قیامت ہے حوران خُلد کو کیا ہوا گلاب و یاسمین کے جان و تن میں کس کے حسد و رشک سے آگ لگ گئی ہے، دریاوُں اور چشموں کی بل کھاتی روانی میں ترنم صد ہزار کیوں۔ ہائیں ترنم ریز اور عطر بیز کیوں ہیں۔ فضائیں عنبر بار کیوں ہیں، ہر ذرہ خاک زندگی کی حرارت کا پتہ دینے لگا ہے وقت کا ہر لمحہ سر خوشی و سرمستی سے ناچ رہا ہے، کائنات کا گوشہ گوشہ وفور شوق سے غرقِ آب و تاب ہے کلیاں مسکرا رہی ہیں۔ گلِ لالہ کا بانکپن جوش شباب میں ہے۔ گلزار و بہار اُٹھتی جوانی کے آنگن میں محو رقص ہ خرام ہیں، وہ دیکھو قصر نو شیرواں کے کنگرے گرتے چلے جا رہے ہیں،تخت و تاج اچھالے جا رہے ہیں،محلات زمین بوس ہوا چاہتے ہیں، جہاں شراب و کباب اور رباب و شراب کب محفلیں جمتی ہیں عیش و نشاط کی زمزمہ آرائی ہوتی ہے اور ارغوانی شراب کے سرور سے بجھے دل بہلنے لگتے ہیں،آج حاکمانہ غرور پیوند خاک ہے، شاہان روزگار اور یزیدان اقتدار لرزہ بر اندام ہیں فرماں روائے یمن ابرہہ نحوت و تکبر کی علامت ہے غرور پادشاہی پر نازاں و فرحاں ہے اپنے سامنے ہر کسی کو ہیچ سمجھتا ہے۔ خانہ کعبہ کی جلالت اس کے دل ناپاک میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے وہ خانہ کعبہ کو غرقاب و فنا کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے، اپنے مذموم ارادہ کی تکمیل کے لئے مکہ کی جانب چل نکلا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ابر رواں کی مانند پورے عرب پر چھا گیا ہے۔ اہل مکہ اس صورت حال سے سخت افسردہ و پثمردہ ہیں تاب مقاومت سے محروم ہیں، مقابلے کی ہمت سے عاری ہیں سوائے آہ و فغاں اور گریہ و زاری کے ان کے دامان محبت میں کچھ بھی تو نہیں ہے عجز و انکسار اور داماندگی و درماندگی کا پھٹا دامن تھام کر پہاڑوں کے دامن میں جا پناہ گزیں ہوتے ہیں۔ دفعتاََ چرغ نیلی فام کی وسعتوں میں غلیلہ سا بلند ہوتا ہے کیا دیکھتے ہیں کہ ٹڈیدل کے ایک لشکر جرار نے وسعت افلاک کو گھیرے میں لے لیا ہے، فضا سے لشکریوں پر کنکریوں اور سنگریزوں کی مسلسل برسات ہونے لگتی ہے پھر کیا تھا۔ دشمن خُدا آناََ فاناََ عذاب الہی کا شکار ہوتا ہے اور یو ں لشکر غنیم تتر بتر ہو کر رہ جاتا ہے باقی بھسم کی شکل میں بن جاتے ہیں۔ اُدھر آتشکدوں کے جہنم خیز شعلوں نے جامہ کافوری زیب تن کر لیا،، آتش پرستوں کی آتش پرستی نار جہنم میں جھلس کر رہ گئی، سالہا سال سے روشن آگ کے تیز و طرار شعلے بجھ گئے۔ خانہ کعبہ کے دیوار و در مارے خوشی کے نہال ہوتے جاتے ہیں، کفر و شرک سجدہ ریز ہو گئے،بت یک بیک گرنے لگے، ظلمت کدے تھر تھر کانپ اُٹھے،تاریکی غائب ہوتی جاتی ہے اجالا ہر سو پھیل رہا ہے افق مشرق پر سپیدہ نور سحر بیدار ہوتا ہے۔ یتیموں کے سروں پر دست شفقت کی رحمت چھانے والی ہے،بیکسوں کے دلوں میں قوس و قزح کی نرماہٹ اور اس کا گداز آزے والا ہے زیر دست زبردستوں سے ٹھن جانے کا حوصلہ قانے والے ہیں یتیموں اور مسکینوں کے مضحمل چہروں پر شادابی کا نور پھیلنے والا ہے۔آج فخر کائنات حضرت محمدﷺ عربی کی آمد آمد ہے۔ اسی دن قبیلہ ہوزان کی عورتیں شہر میں آئی ہیں تا کہ اجرت پر دودھ پلانے کے لئے کوئی بچہ ہاتھ آئے۔ہر ایک کی فطری اور قدرتی خواہش ہے کہ اسے اس گھرانے کا بچہ دستیاب ہو جائے جہاں مال و زر کی فراوانی ہو،یہ عورتیں امیر گھرانوں کے بچوں کو لے کر اپنے اپنے ٹھکانوں کو چل دیں، لیکن (حیف صد حیف) یتیم مکہ کو کسی نے لائق التفات نہیں جانا، ان عورتوں میں ایک غریب و نادار مگر صاحب اخلاص عورت بی بی حلیمہؓ ہے، وہ بی بی آمنہ ؓ کے شکستہ گھر میں آتی ہے،یتیم بچے کے چہرہ معصوم پر داغہائے یتیمی کو دیکھ کر ٹھٹھر سی جاتی ہے، خود مفلس ہے مفلسی کو دیکھ کر خوفزدہ سی ہو جاتی ہے گہری سوچ میں ڈوب جاتی ہے۔اتنے میں ہاتف غیبی کی صدائے دردناک نے افکار کی دنیا میں طوفان پیامت برپر کر دیا٭حلیمہ۔گدڑی کو نہ دیکھ گدڑی میں پنہاں لعل و گہر کو دیکھ٭یاقوت و زمرد کو دیکھ٭زر و جواہر کو دیکھ یہ یتیم تو ہے لیکن نگاہ حقیقت شناس میں معدن لعل و گہر ہے گہر تابدار اور لولوئی سہوار ہے٭حلیمہؓایک شان دلربائی سے معصوم جان عزیز کو آغوش محبت میں بھینچ لیتی ہے،سینے سے چمٹا لیتی ہے، لاغر و ناتواں اونٹنی پر یتیم مکہ کو اپنے ساتھ بٹھاتی ہے۔لیکن دیکھو اہل جہاں دیکھو٭لاغر اونٹنی کو کیا ہو گیا یہ تہ ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ جشم فلک پردہ اسرار سے جھانک کر کیا دیکھتی ہے کہ دبلی پتلی اونٹنی ہمدوش ڑریا بن گئی،ابھی لاغر و ناتواں ہے۔ دوڑنے پھرنے کے قابل نہیں ہے اور اب ہمراہیوں کی سواریوں کو پیچھے چھوڑ خود براق کی مانند سرپٹ دوڑے جا رہی ہے۔یہ صورت حال دیکھ کر سب کے سب انگشت بدنداں،بتکدہ حیرت میں سرنگوں ہو گئے، ہر چند سواری نہیں بدلی ہے لیکن سواری کا سوار بدل گیا ہے۔خدا کی رحمتیں قریش کے گھر سے نکل کر اب قبیلہ ہوزان کے ہاں فروکش ہو گئی ہیں جو موتی ریت کی آغوش میں پلتے ہیں در شہسوار بنتے ہیں اور سنگریزوں سے کھیلنے والے ہیرے کوہ نور کہلاتے ہیں۔ جب حلیمہؓ حضور کو لے کر اپنے گاوں آتی ہیں سارا علاقہ قحط زدہ ہے، جا بجا بھوک،ننگ اور افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، لوگ نان شبینہ کو ترس رہے ہیں،انہیں کیا پتہ کہ ان کے گھر میں رحمت یزداں کا نزول ہو چکا ہے ابر گہر بار جھوم جھوم کر رحمت و رافت کف نویں سنا رہا ہے قدرت کی مہربانیاں دیکھو۔اب دودھ نہ دینے والی بکریاں دودھ دینے لگی ہیں ان کے تھن دودھ سے بھر گئے ہیں ہر طرف ہریالی نظر آنے لگی ہے ٭حلیمہؓ نے حضور کو دودھ پلایا لیکن میرا ذوق و وجدان پیہم یہ کہنے پر اسرار کرتا ہے کہ آنحضورﷺ نے حلیمہؓ کے سارے خاندان اور سارے قبیلے کو دودھ پلایا۔اللھم صلی سیدنا و مولانا محمد و علی ال سیدنا محمد و بارک و سلم پروگرام کے اختتام پر عاشقان رسولﷺ کو لنگر محمدی پیش کیا گیا۔