0

۔،۔سفرِ نور قسط چہارم۔اے آراشرف۔،۔

0Shares

۔،۔سفرِ نور قسط چہارم۔اے آراشرف۔،۔
مسجد قبا۔یہ مدینہ منورہ سے تین میل باہر بستیِ قبا میں اسلام کی پہلی تاریخی عمارت ہے جو۔مسجدِ قبا۔کے نام سے اپنی تاریخی اہمیت، جا وجلال اور شان وشوکت کے ساتھ موجود ہے اس مسجد کی زیارت کی بہت فضیلت بیان کی جاتی ہے بلکہ یہاں بیس رکعات نمازوں کی بہت تاکید کی گئی ہے۔یہاں پر ادا کی گئی نماز کا ثواب ایک عمرہ کے برابرہے اگر موقع ملے تو کم از کم یہاں نماز ضرور ادا کریں۔
میدان بدر۔یہ وہ مقام ہے جہاں اسلام کا سب سے پہلااور مشہور معرکہ ہوا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان نیا راستہ بن جانے کی وجہ سے اکثر حجاج یازوار اس کی زیارت سے محروم رہ جاتے ہیں مدینہ منورہ کے قدیم راستے پر بدر کا میدان اور قبرستان واقع ہے جہاں ایک احاطہ میں شہدائے بدر کی آرام گاہ یعنی قبور ہیں یہ بات تقریباََ ہر مسلمان کے علم میں ہے ہے کہ جنگ بدر کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کفار کی جانب سے مزاحمتوں کا سلسلہ زور پکڑنے لگا تو سرکار دو عالمﷺ کو بھی مسلح ہو کر اُنکا مقابلہ کرنا پڑا بعض معرکوں میں آپﷺ خود شرکت فرماتے تھے جہنیں۔غزوہ۔ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جن کی تعداد۶۲ بیان کی جاتی ہے اور بعض مورخین کے مطابق غزوات کی تعداد۸۲ ہے اسی طرح جن معرکوں میں حضورﷺ کسی دوسرے مسلمان کو سردار بنا کر بھیجتے تھے اُنہیں۔سریہ۔کہا جاتا ہے اور جن کی تعداد۶۳بیان کی جاتی ہے۔بدر۔کا معرکہ جو اسلام کا مشہور ترین اور پہلا معرکہ ہے اس معرکہ میں مسلمانوں کا قلیل لشکرکل ۳۱۳ افراد پر مشتمل تھااور جنگی سامان میں اُنکے پاس صرف تین گھوڑے ستراونٹ آٹھ تلواریں اور چھ زریں تھیں جبکہ کفارکا لشکرنو سو پچاس افراداور کثیرجنگی اسلحہ سے لیس تھا۔بدراگرچہ پہلا معرکہ تھا اور لشکر اسلام میں انتہائی بے سروسامانی کا عالم تھا لیکن مسلمانوں کے جذبہ ایمانی اور نصرت خداوندی کے نتیجے میں کفارمکہ کے معتبرسردارلقمہ اجل ہوئے اس معرکہ میں علم لشکر حضرت علیؑ کے ہاتھ تھااگرتعصب کی عینک اُتار کر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بدر کے اصل مجاہد جناب حمزہؓ،جناب عبیدہؓ اور حضرت علیؑ یعنی کل اولاد عبدالمطلب تھی اس جنگ کے نتیجہ میں چودہ مسلمان شہید ہوئے جبکہ لشکر کفار سے ستر افراد ہلاک ہوئے اور ستر افراد قیدی بنائے گئے ان ہلاک ہونے والوں میں ۵۳افراد کو تنہا علیؑ نے ہلاک کیا تھااس موقع پر حضورﷺ نے کفار کے مقتولین کو ایک کنویں میں دفن کرکے قرآن کی آیت کی تلاوت فرمائی کہ۔جو خدا نے ہم سے وعدہ کیا تھا وہ ہم نے پا لیااب تم بتاؤ کہ جو وعدہ تم سے کیا گیا تھا وہ تمھیں حاصل ہوا کہ نہیں جنگ بدر کہ سلسلہ میں یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ حضرت علیؑ کی تلوارسے ہلاک ہونے والوں میں ایک عتبہ بھی تھاجو۔ہندہ۔جگرخوارہ حضرت حمزہؓ کا باپ معاویہ کا نانا اور ابوسفیان کا سسر تھا دوسرا ولید تھا جو معاویہ کا ماموں اور تیسرا حنظلہ بن ابوسفیان جو معاویہ کا بھائی تھاان حالات کے پیش نظر یزید اور معاویہ میں جذبہ انتقام کا پیدا ہونافطری امر تھا۔جنگ بدر اسلام کی تاریخ میں گہرا اثر چھوڑا کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے اپنے مخالفین کفار سے جنگ لڑی جس میں وہ اپنی ایمانی قوت اورسرفروشی کی بدولت تعداداور اسلحہ کے لحاظ سے تین گنا طاقتور دشمن پر غالب آئے اور اُنہیں عبرتناک شکست دی۔اس جنگ میں اہم بات یہ تھی کہ اس کی کمان رسول اکرمﷺنے خود سنبھالی اورحکم دیا کہ تین پرچم لہرائے جائیں ایک مہاجرین کا تھا جو مصعب بن عمیرکو سونپا گیادوسرا پرچم قبیلہ خزرج کے سردارحباب بن منذراور تیسرا پرچم قبیلہ اوس کے سردار سعدبن معاذ کو سونپا گیااگرچہ اسلامی فوج ضروری جنگی سازوسامان سے خالی تھی مگر رسولﷺ کے وعدوں جن کاسرچشمہ وحی الہی تھا جس کی بنا پر مسلمان قوت ایمانی سے پرجوش ہوگئے تھے۔کفار مکہ نے مسلمانوں کی تعداد جنگی سازوسامان کی قلت کا اندازہ لگاتے ہوئے اوراُنکے جوش وجذبے کو دیکھ کرسمجھ لیا تھا کہ اس قوم سے جنگ لڑنا کوئی آسان کام نہیں اس صورت حا ل کے پیش نظر کفار کے سرداروں عتبہ اور ربعیہ نے جنگ کا ا رادہ ترک کردیا تھا مگر ابو جہل کے اُکسانے پر جنگ پر امادہ ہوگئے جب جنگ آغاز میں مسلمانوں کی جانب سے عبداللہ بن رواحہ اور حارث کے بیٹے عوف اورمعوذآگے بڑھے تو کفار کی جانب سے عتبہ بن ربیعہ اور اُسکا بھائی شیبہ اور بیٹا میدان میں نکلے اور اعتراض اُٹھایا کہ وہ اپنے چچازاد بھائیوں کے علاوہ کسی کو اپناحریف اور ہم پلہ نہیں سمجھتے اسطرح ان تینوں افرادکی جگہ علیؑ ابن ابی طالبؑ،حمزہؑ بن عبدالمطلبؓ اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلبؓ میں جنگ ہوئی جس میں کفار کے وہ تینوں سردار واصل جہنم ہوئے اور جناب عبیدہؓ زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔
میدان احد۔یہ وہ مقام ہے جہاں مکہ کے بت پرستوں نے جنگ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کیلئے ابوسفیان کی قیادت میں مسلمانوں کے ہاتھوں اُنکی عزت کے دامن پر لگے شرمناک داغ کو دھونے اور اپنے مقتولین کے خون کانتقام لینے کیلئے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں تھیں اور اسی مقام پر۔جنگ احد۔کامیدان سجا تھا سعودی حکومت نے اس کے اردگردآہنی جنگلے کی مضبوط دیوار کھڑی کر ددی ہے حجاج اس دیوار کے باہر ہی کھڑے ہو کر اس تاریخی احاطے کی زیارت کرسکتے ہیں جہاں رسول پاکﷺ کے پیارے چچا سیدالشہدا حضرت حمزہؑ اور جنگ احد کے دیگر شہدا کی قبریں موجود ہیں جہنیں ایک میدان کی صورت میں تبدیل کر دیا گیاہے اوراس جنگلے کے اندر داخل ہونے کی کسی کو اجازت نہیں ساتھ ہی کچھ فاصلے پر وہ پہاڑی۔ کوہِ عینین۔ موجود ہے جسکے درے پر حضورﷺ نے کچھ اصحابہ کو نگرانی کیلئے مقرر کیا تھا اور ہدائت کی تھی کہ خواہ کیسی ہی صورت پیش آئے وہ اس درے کو نہیں چھوڑیں گے مگر ان اصحابہ نے حضورﷺکی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے مال غینمت کے لالچ میں اُس اہم جگہ کو چھوڑ کر مال غینمت سمیٹنے میں مصروف ہو گئے اس جگہ کوخالی دیکھ کر کفار کے سردار خالد بن ولیدنے درے کی جانب سے دوبارہ حملہ کر دیااور دوسرامشرکین میں کسی نے بلند آواز میں یہ اعلان کر دیاکہ نعوذ باللہ محمدﷺ مارے گئے۔ اس وحشت ناک خبر اور غیر متوقع حملے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی اورمیدان سے فرار ہو گئے اور حضورﷺ دشمنوں کے نرگے میں گھرِ گئے اس موقع پر حضرت علیؑ ایک سپر کی مانند آنحضرتﷺ کے گرد گھومتے ہوئے دشمنوں کو مار مار کر بھگارہے تھے جب حضرت جبریل نےؑ امام علیؑ کی جاں نثاری اور سرفروشی دیکھی تو بے ساختہ کہا۔لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔اس جنگ میں بہت سارے ناموراصحابہ میدان چھوڑ کربھاگ گئے تھے ان بھاگنے والوں کے نام اور تفصیل۔درمنشور،تفسیرکبیر،اورطبری میں دیکھی جاسکتی ہے نبیﷺ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کی بنا پر مسلمانوں نے جیتی ہوئی جنگ کومشکل میں ڈال دیابھگدڑ کایہ عالم تھاکہ ابتدا میں ڈیڑھ سو مسلمانوں جنگ کا آغاز کیامگر آخر میں تنہا حضرت علیؑ کفار کے علبرداروں کے قتل میں مصروف ہو گئے۔اس جنگ میں رسولﷺشدید زخمی ہوئے اور حضرت علیؑ حضورﷺ کی حفاظت میں پیش پیش رہے جس کے نتیجہ میں سولہ ایسے زخم کھائے کہ باربار گر پڑتے تھے مگررسول اکرمﷺکے دفاع میں اپنی جان نذرانہ پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے کیونکہ آپؑ میدان سے فرار کوایمان کے بعد کفر کا درجہ دیتے تھے دوستوں اور دشمنوں کی روائت کے مطابق تاریخ اسلام نے جنگ احد کے دوران حضرت علیؑ کو رسول اکرمﷺ کا واحدیاور اور مددگار قرار دیااور انکی دلاوری اور ثابت قدمی کی بے حد تعریف کی ہے اگرچہ محاصرہ کا دائرہ تنگ ہو رہا تھااور دشمن زیادہ جسارت کے ساتھ آنحضرتﷺ کے قریب آرہے تھے مگر امام علیؑ کی شجاعت کے باعث رسولﷺ تک نہ پہنچ پائے تب انہوں نے حضورﷺ پر پتھروں کی بارش شروع کردی ایک پتھر آپ کی پیشانی مبارک پر لگاجس سے گہرا زخم آگیا دوسرا پتھر۔عتبہ بن ابی وقاص نے حضورﷺ کے چہراپر مارا جس سے آپ کے دو دندان مبارک شہیدہو گئے اس کے علاوہ آپ کے دوش مبارک تلوار کا وار بھی کیا گیا تاہم دشمنوں کے ہاتھوں یہ تمام تکالیف اُٹھانے کے باوجود اس عظیم حادی نے بددعا کیلئے لب نہیں کھولے۔۔اس جنگ میں افسوسناک المیہ یہ ہواکہ سیدالشہدا حضرت حمزہ کی شہادت واقع ہو گئی اور اُس وحشی قاتل درندے نے معاویہ کی والدہ ہندہ کی خواہش پران کلیجہ نکال کرہندہ کے حوالے کیاجسے اُسنے چبانے کی کوشش کی اور جب ناکام ہو گئی توناک اور کان کاٹ کر اس کا ہار بنا کر گلے میں ڈال لیااسطرح کفر نے اسلام سے اپنی شکست کا بدلہ لے لیااس کے علاوہ اور کوئی معروف صحابی اسلام کے کام نہ آیارسول اکرمﷺنے جناب حمزہ کے جنازہ پر سات تکبیریں کہیں اور دوسرے شہداکے جنازہ کی نماز کیساتھ بھی جناب حمزہؑ کو شامل رکھا دوسری یہ بات تھی کہ اپنے معتبر سرداروں کی ہلاکت کے بعدابوسفیان نے تازہ تازہ مکہ کی قیادت سنبھالی تھی اُس نے اعلان کر دیا تھا کہ قریش کے کسی خاندان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے مقتولین کے سوگ میں آنسو بہائے کیونکہ اُس کے نزدیک رونے دھونے سے انسان کا غصہ ٹھنڈا پر جاتا ہے اور جذبہ انتقام کمزورپڑ جاتا ہے۔جنگ بدر۔کو کم و بیش تقریباََ ایک سال ہی ہوا تھا کہ ابوسفیان جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گیااور مختلف قبائل کو جنگ بدر کیواقعات سُنا سُنا کر اُنہیں اُکسانے اور انتقام لینے پرآمادہ کر لیا۔ اور اسطرح پانچ ہزار افراد پر مشتمل ایک طاقتورفوج تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا جس میں تین ہزار دو سو گھڑ اور شتر سواراور آٹھ سو پیدل سپاہی شامل تھے جب کہ مسلمانوں کی تعداد صرف ایک ہزار تھی اور اُن میں تین سو افراد عبداللہ بن اُبی منافق کے ساتھی تھے جو راستہ ہی میں واپس ہوگئے تاکہ مسلمانوں میں انتشارپیدا ہو جائے مگرجنگ ہوئی اگرچہ مسلمانوں کی بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ انکے پاس صرف سوزریں دو گھوڑے تھے مگر جذبہ ایمانی سے سرشار تھے۔اس بات کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہاتھا۔ بے خوف آتش نمرود میں کود پڑا عشق۔ کہ جنگ احد کے شہیدوں میں۔حنظلہ نامی دولہا۔ایک ایسا مجاہد بھی تھا جوجانبازی سرفروشی کی زندہ مثال تھا۔حنظلہ۔چوبیس سال کا نوجوان تھاعین اُس رات جسکی صبح کو جنگ احدتھی اور وہ اسکی سہاگ رات تھی اور حضورﷺ نے اُسے اجازت دی تھی کہ زفاف کی حاطر مدینہ میں رہے مگر شوق شہادت نے اُسے مجبور کردیا اور اپنی دولہن کو روتا چھوڑکرشہدا کے قافلے میں شریک ہو گیااورفطرت کا تقاضا تھا کہ اسکی راہ میں آنے والی رکاوٹیں اس کے ارادے کو متزلزل نہ کرسکیں اورشوق شہادت اُسے میدان جنگ کی جانب کھینچ لایااور تاریخ میں اُسکا نام ا مر ہوگیا۔میدان احد کے اعمال میں اگر ملے تو کم از کم زیارت حضرت حمزہؑ اور دیگر شہدائے احد کی زیارت اُنکے ایصال ثواب کیلئے پرڑھیں اور ہو سکے تو مسجد امام سجادؑاورامام صادق میں نماز ضرور پڑھیں۔جاری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں