0

۔،۔طوائف زادی حصہ اول۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔طوائف زادی حصہ اول۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میں حسب معمول دفتر پہنچا تو گارڈ نے بتایا سر صبح سے وہ لڑکی بینچ پر بیٹھی آپ کا انتظار کر رہی ہے تو میں اُس کے اشارے کی طرف چلنا شروع ہو گیا قریب پہنچا تو سیاہ عبایہ میں ملبوس لڑکی عقیدت کے طور پر کھڑی ہو گئی عقیدت سے سرشار لہجے میں سلام کیا تو میں پہچان گیا یہ تو حافظہ طاہرہ ناز تھی جو ایک سال سے میرے پاس روحانیت تصوف عشق الہی تزکیہ نفس مراقبہ ذکر اذکا ر کا درس لینے آرہی تھی اُسے طاہرہ بیٹی کو صبح صبح دیکھ کر میری صبح خوشگوار شاندار ہو گئی میں خوشی سے سر شار لہجے میں بولا واہ بھئی واہ آج تو میری بیٹی آئی ہے اُس کو دیکھ کر واقعی مجھے حقیقی خوشی ہوئی تھی وہ اِس لیے کہ میرے پاس آنے والے زیادہ تر لوگ دنیاوی مسائل پرشانیوں کی وجہ سے آتے ہیں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو میری کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے آکر کہتے ہیں کہ سر ہم دنیاوی کسی مسئلے کے لیے نہیں قرب الٰہی عشق الٰہی اور روحانیت کے لیے آپ کے پاس آئے ہیں کہ کس طرح ہم خدا کو حاصل کر سکتے ہیں عشق الٰہی کے سمندر میں غوطے لگا سکتے ہیں تزکیہ نفس کی پل صراط سے گزر سکتے کیونکہ یہ میرے پسندیدہ موضوعات ہیں اِس لیے میں فل الگ وقت دیتا ہوں لیکن چند فقروں کے بعد ہی جب وہ دنیاوی مسائل کی لسٹ نکالتے ہیں تو بہت دکھ ہو تا ہے کہ انہوں نے الگ ملنے کے لیے عشق الٰہی تصوف کا ڈھونگ رچایا اصل حقیقت تو وہی رونا پیٹنا اور دل کی بھڑاس نکالتی ہے لیکن میں حیران تھا کہ حافظہ طاہرہ کو میرے پاس آتے ایک سال کا عرصہ ہو گیا تھا اِس لیے پہلے دن سے آج تک روحانیت تصوف اولیاء اللہ عشق الٰہی عشق رسول ؐ روحانی اسرار و رموز کے علاوہ آج تک دنیاداری کی ایک بھی بات نہیں کی تھی میں شروع کی ملاقاتوں میں انتظار کر تا رہا کہ آخر کب تک یہ بھی اپنی جیب سے دنیاوی مسائل کا پرچہ نکال کر اصل روپ میں سامنے آئے گی لیکن آفرین ہے اِس نیک پروین پر کہ ایک سال سے زائد وقت گزر گیا ہر بار یہ اپنی کاپی کھول کر بیٹھ جاتی ہے اور کہتی سر ہم نے پچھلا وظیفہ یہ کیا تھا اتنے دن ہو گئے مراقبہ یہاں تک پہنچ گیا حبس دم کی مشق یہاں تک پہنچ گیا یاحیی یا قیوم کی تعداد یہاں تک پہنچ گئی درود شریف یہاں تک پہنچ گیا اب جناب میرے لیے اگلا حکم کیا ہے مجھے تزکیہ نفس کے لیے اِس مادی جسم کو اور کتنے کڑے مراحل سے گزارنا ہے کیا کھانا مزید کم کر دں تنہائی میں کتنا وقت اللہ تعالی کے غور و فکر میں گزاروں میں اپنے مادی جسم پر تزکیے کا اور کیا بوجھ ڈالوں کہ اِس کی کثافت لطافت میں ڈھل سکے اور میرا نفس جو سر کش گھوڑا ہے اُس کی بے لگامی کو لگام ڈال سکے سر میں اور کیا کروں کہ مشاہدہ حق کا نظارہ کر کے جلوہ حق کے جلوؤں میں غرق ہو کر اپنی منزل پاجاؤں طاہرہ بیٹی کا جنوں جذبہ شدت دیکھ کر مجھے اپنے ابتدائی دن یاد آجاتے جب میں جب در در کی خاک چھانتے ہو ئے مداریوں جادوگروں شعبدہ بازوں کے پاس جا کر ایسے ہی سوال کر تا تھا ان کے بتائے الٹے سیدھے چلوں وظیفو ں میں غرق ہو جاتا تھا پھر ناکام ہو کر دوبارہ ان کی چوکھٹ پرماتھا رگڑ تا کہ ابھی میرا باطن کا اندھیرا دور نہیں ہوا ابھی تک باطن کی چنگاری شعلے میں تبدیل نہیں ہوئی میرا دماغ ابھی تک ارتکاز کے عروج تک نہیں پہنچا دماغ ابھی تک منتشر ہے قلب و روح بنجر ویران ہیں ڈھونگی شعبدے باز مجھے پھر سنہری باتوں میں الجھا کر کوئی نیا وظیفہ دے کر بھیج دیتے میں کتنا عرصہ اِس بھاگ دوڑمیں جھوٹے روحانی بابوں ملنگوں کی چوکھٹ پرماتھا رگڑتا رہا مجھے جب بھی کوئی روحانی طالب علم ملتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ فلاں پیر صاحب کے ساتھ بیس یا تیس سال سے منسلک ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ طالب کی طلب سچی تھی اُس کے اندر ریاضت کی چٹکی لگانے کی ضرورت ہے لیکن وہ جو در بدر ماتھا رگڑ رہے ہیں ان کے پاس وہ شعلہ آگ نہیں ہے جو اُس کی چنگاریوں کو سلگا سکیں تو اُس کے باطن کے اندھیروں کو کیسے نور کے اجالوں میں بدلے گا اُس کی اپنی ٹینکی میں پانی ہو گا تو ٹوٹی میں آئے گا ٹرانسفارمر میں کرنٹ ہو گا تو تاروں میں کرنٹ جائے گا اگر ٹرانسفارمر ہی بے جان مردہ ہے تو وہ دوسروں کو کیسے کرنٹ دے گا اور بنگالی پیر صاحب حقیقت جانتے ہوئے بھی اُس کو سنہری باتوں میں جھوٹی کرامتوں کے ذکر سے اپنی غلامی میں باندھے رکھیں گے اور بیچارے مرید طلب روشنی کی تلاش میں سالوں کے سال جھوٹے پیر کے در پر نوکری کر تے گزار دیتے ہیں کہ آج روشنی ملی کل ملی آج اُن کے وجودسے کرامتوں کا ظہور ہو گا کل ہوگا آج یا کل وہ بھی کن فیکون کے مقام پر فائز ہو کر کن فیکون کی چھڑی کو حرکت دے کر لوگوں کے مسائل حل کر کے معاشرے پر حکمرانی کریں گے روحانی طالب علموں میں زیادہ تر کو پیر بننے کا شوق ہو تا ہے تاکہ اُس کے ڈیرے پر بھی معاشرے کا ہر بااثر بندہ عقیدت مندوں کی طرح سر جھکا کر حاضر ہو اور وہ دلوں کا تاجدار بن کر لوگوں پر حکمرانی کریں بہت کم ایسے طالب علم ہوتے ہیں جو حقیقی عشق الٰہی کے مسافر ہوتے ہیں جو حقیقی خدمت خلق کو مشعل کو روشن کرتے ہیں بہت سارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت دعوؤں کے ساتھ راہ حق کے مسافر بنتے ہیں لیکن جیسے ہی تزکیہ نفس کے کڑے مراحل سے گزرتے ہیں ہمت ہار جاتے ہیں کہ سر یہ ہمارے بس کا کام نہیں دنیا کی لذت کو چھوڑنا ہمارے بس کا کام نہیں ہے چند بہت زور شور سے آئیں گے پھر غائب ہو کر کسی دوسرے آستانے پر طواف کر تے نظر آئیں گے کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں کہ کمر یا سر پر ہاتھ پھیر کر پیر کامل بنا دیں اِسی طرح یہ زندگی گزار دیتے ہیں حافظہ طاہرہ بھی ایسے ہی جذبہ شوق کے ساتھ میرے پاس آئی تھی کہ اُس کی منزل صرف اور صرف عشق الٰہی او ر قرب الٰہی اور راہ حق ہے مجھے لگا یہ بھی چند ملاقاتوں کے بعد دنیاوی مسائل کی طرف آجائے گی لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بھی وہ حق کی مشعل روشن کئے کھڑی تھی پہلے دن سے آج تک اُس کی تلاش منزل صرف اور صرف حق تعالیٰ کی ذات اُس کی خوشنودی تھی میں متاثر ہو گیا تھا میں اُس کے سامنے بیٹھ گیا شفیق نظروں سے دیکھا اور بولا بیٹی تم واقعی اللہ کی مسافر ہو اورتم شادی کر لو تاکہ راہ حق او ربھی آسانی سے ہو سکے تو وہ بولی میں طوائف زادی ہوں مجھ سے کوئی شادی نہیں کرے گا)جاری ہے)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں