۔،۔ زندا نوں کا جبر ۔طارق حسین بٹ شان-،۔
یہ دنیا جس کے ہم واسی ہیں اس میں انسانی آزادیوں کا ہر سو چرچا ہے۔ہر ذی نفس انسانی حقوق کی روشنی اور آزادیوں کی بے پایاں مسرت سے محوِ رقص ہے۔اس کا من ان دیکھی خوشیوں سے فرخا ن و شاداں اپنے مقدر پر نازاں ہو کر موجودہ دنیا کی نئی صورت گری کے لئے بے چین۔وہ جبرو کراہ اور آمریت کے منحوس سائے سے پناہ مانگتا ہے۔اسے ایسے ہر اک نام سے وحشت ہوتی ے جو انسانی آزادیوں کو سلب کرنے کا باعث بنتا ہے۔وہ اپنی حیات کے ایک ایک لمحہ کو پر کیف بنانا چاہتاس ہے۔وہ جمہوری روح کی عطا کردہ روشنی اور ووٹ کے تقدس سے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرنا چاہتا ہے۔وہ کسی کی دھوند س دھاندلی اور جبر کے بغیر زندگی کی پر کیف بہاروں سے لطف اندوز ہو نا چاہتا ہے۔اس کی قرن ہا قرن کی جدو جہد سے آمریت کی سیاہی لوحِ جہاں سے ہمیشہ کے لئے مٹا دی گئی ہے۔ لیکن کچھ بد بخت پھر بھی دوسروں کو اپنی خواہشات کاغلام بنانا چاہتے ہیں۔ان کے اذہان کو پرا گندہ کرنا چاہتے ہیں۔بندوق اور گولی کی طاقت سے ان کے مقدر کو اپنی مٹھی میں بند کرنا چاہتے ہیں۔نہتے انسانوں کا قتلِ عام معمولی بات ہے لیکن اس کے پیچھے چھپی ہوئی انسانی روح کی پکار ہر ایسے دل کو ہلا کر رکھ دیتی ہے جس میں انسانی درد کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ایک ایسا حساس دل جو انسانی محبت کا مسکن بنا ہو اس طرح کے قتلِ عام کو کیسے گوارا کر سکتا ہے۔اس کی بے چین روح انسانی عظمت کی خاطر سرِ دار بھی پکار اٹھتی ہے۔پ(خون آشام بستی میں پیار کا دیپ جلانا ہے۔،۔مہرو وفا کا ازلی گیت سب نے مل کر گانا ہے)۔،۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طاقت اپنا وجود رکھتی ہے اور پسماندہ ممالک میں اس کے مظاہرے اکثروبیشتر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔طاقت کی مسند پر بیٹھا ہوا انسان دوسروں کو نیچ، کمتر، بے وقعت اور کمی کمین سمجھتا ہے۔ اس کا ایمان اس کی وہ بندوق ہوتی ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔وہ اسی بندوق کی طاقت سے دوسروں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے تو عوام کی اکثر یت اس کے جھانے میں آ جاتی ہے لیکن کچھ سر پھرے اس کی اس بندوقی قوت سے بغاوت کردیتے ہیں جس سے معاشرے میں بغاوت و بے چینی کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں اور بغاوت کا یہ شعلہ ایک انسان سے دوسرے انسانوں کے سینوں میں منتقل ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔اس شعلہ کا منتقل ہونا انقلاب کی وہ پہلی اینٹ ہے جو کسی معاشرے میں رکھ دی جاتی ہے۔اس شعلے کی حدت اور حقیقی انقلاب میں عشروں کا سفر درکار ہو تا ہے لیکن یہ جیت اس انسان کی ہوتی ہے جو جبر کے سامنے ڈٹ جاتا ہے اور لا کھوں لوگوں کو اپنی جرات و بسالت کا اسیر کر لیتاہے۔(دائم نقش رہے گا قائم اس دھرتی پر میرا۔،۔ بھیس بدل کر آؤں گا میرا جوگی والا پھیرا)۔،۔بھری ہے میر الفت سے ہر اک فرد کی جھولی۔،۔ رہے گا سب کے قلب و نظر میں روشن میرا چہرہ)۔زندگی اس کرہ ِ ارض پر سب سے انمول اور قیمتی متاع ہے جس کے اندر پیارو محبت، جبرو کراہ اور نفرت و انتقام کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ ہر جذبے کا اپنا نتیجہ ہوتاہے۔اچھائی کا بدلہ اچھائی،نیکی کا بدلہ نیکی،محبت کا بدلہ محبت اور انتقام کا بدلہ انتقام ہے۔کیا یہ ممکن ہو سکتاہے کی سنگترے کے پیڑ پر گندم کے خوشے نکل آئیں۔خوش قسمت ہیں وہ انسان جو محبت کی کھیتیا ں پروان چڑھاتے ہیں اور انسانیت کے لئے اعلی و ارفع منزل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ان کے اپنے قدم جب اس خون آشام راہ اور وادیِ خارزار میں لہو لہان ہو نا شرع ہو جاتے ہیں تو پھر انسانیت کے متوالے ان کے قدموں میں اپنی آنکھیں بچھا دیتے ہیں۔ان کی نازک نازک پلکیں ان کانٹوں کو چنتی جاتی ہیں اور محبت کی ابدی علامت بن کر اہلِ دل سے خراج وصول کرتی جاتی ہیں۔وہ بے لوث محبت جو بہادر،جری اور بے خوف انسانوں کے لئے ان کے من میں پلتی ہے دھیرے دھیرے گہری ہوتی جاتی ہے اور بے خوف انسان اپنے ہم نفسوں کی آزادی کا اہتمام اپنے لہو کی بوندوں سے کرتا ہے۔ اپنی اس عالمگیر محبت کی خاطر اس کے لئے کبھی کبھی موت کی آغوش بھی کھل جاتی ہے اور وہ اپنی آنکھیں موندھے نئی دنیا کا راہی بن جاتا ہے لیکن اس کی جلائی ہوئی شمع انسا نیت کیلئے ایک ایسی روشنی کا استعارہ بن جاتی ہے جو کبھی نہیں بجھتی(متاعِ بے بہا ہے دردو سوزو آرزو مندی۔،۔مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی)۔،۔(تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا۔،۔ یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی)۔ایک بے پایاں خوشی کا سمندر میرے من میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے کہ اس کرہِ ارض کی غالب اقوام نے جمہوریت کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ہیں۔ سپہ سالار،طالع آزما، راجہ مہاراجے اور شہنشاہوں نے اس کی بے صوت آواز کے آگے ہتھیار ڈال دئے ہیں۔جمہوریت ایک ایسی روشنی ہے جس میں انسانی رائے کی خوشبو سب کو اپنا گرویدہ بنا یتی ہے۔ نہ کہیں تیرو سناں ہیں نہ کہیں پر شمشیریں اور تووپیں ہیں اور نہ ہی کہیں پر جنگی جہاز اور میزائلوں کا استعمال ہے بس ایک پرچی جو آزادانہ رائے سے کسی حکمران کا انتخاب بھی کرتی ہے اور پھر اس کی بے ہنگم قیادت پر اسے تخت سے زمین پر پٹخ بھی دیتی ہے۔ہمارا معاشرہ چونکہ ابھی تک قبائلی آداب میں پھنسا ہوا ہے لہذا یہاں پر پرچی کی اہمیت کو مغربی اقوام کی طرح محسوس نہیں کیا جا رہا۔جس کے پاس طاقت ہے وہ اپنی اندھی طاقت کے زعم میں پرچی کی حرمت اور تقدس کو اپنے پاؤں تلے روندھ کر اقتدار کے دنگھاسن پر برا جمان ہو جاتا ہے۔شفاف،غیر جانبدار اور آزاد انہ انتخابات کے مطالبے پر کشتوں کے پشتے لگا دئے جاتے ہیں۔ایسا مطالبہ کرنے والے غدارِ وطن کے ساتھ ساتھ دہشت گرد بھی قرار پاتے ہیں۔ زندانوں کی بلندو بالا دیواریں اور آہنی قلعوں کی دیواریں ایسے فدائین کا مقدر بنتی ہیں۔ مہذب دنیا کے اصول و ضوابط اور جمہوری آداب کا دیباچہ عوام سے چھین لیا جا تا ہے اور انھیں اندھی طاقت کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور جوکوئی ایسا کرنے سے انکار کر دے اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔اس طرزِ عمل کا مشاہدہ ہم روز کرتے ہیں اور پھر صرفِ نظر کر کے گزر جاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس لہو کا خراج دینے کا حو صلہ نہیں ہوتا۔(جی میں آتا ہے کہ اک دن میں بھی رقص میں آؤں۔،۔ نسلیں جس کو یاد رکھیں کچگھ ایسا ہی کر جاؤں)۔،۔(اپنے نام کی عظمت تع لگے ہے مجھے بھی پیاری۔،۔ پر موت کا جس میں خوف نہ ہو وہ قلب کہاں سے لاؤں)۔لیکن وہ جو حریت پسند ہیں وہ جو آزادی کے متوالے ہیں، وہ جو عدل و انصاف اور قانون کے پجاری ہیں اور وہ جو آئین و قانون کے دلدادہ ہیں وہ راہِ حق میں اپنی جانوں کا نذرا نہ دے کر انسانیت کو سرخرو کر دیتے ہیں۔سزا کا خوف یا موت کا اندیشہ ان کی راہ کی زنجیر نہیں بنتا۔وہ کھلی فضا میں آزادی کا نعرہ بلند کرتے جاتے ہیں اور ہم جیسے مضمل افراد ان کے نعروں میں زندہ و پائیندہ قوم کا ہیولہ دیکھتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں۔جب پورا ملک زندان خانوں کا روپ دھار لے تو زندانوں کے دروازے کسی مردِ قلندر کی آواز سے ہی کھلتے ہیں۔ (زندانوں کا شہر بسا ہے میرے وطن کے اندر۔،۔ دل دا جانی بنا ہے قیدی زندانوں کے اندر)۔،۔ (تیغِ بے نیام ہے وہ عہدِ جبر کے اندر۔،۔ صحرا کو وہ دیکھ رہا ہے مشتِ خاک کے اندر)۔،۔(زنداں کی فصیلوں پر مرگِ خوف کے سائے ہیں۔،۔زنجیریں جس کی نظر سے ٹوٹیں ایسا ہے وہ مردِ قلندر)۔