-,-شاہین کی پرواز: علامہ اقبالؒ کا پیغامِ حیات-تحریر: واجد قریشی(ڈنمارک)-,- 0

-,-شاہین کی پرواز: علامہ اقبالؒ کا پیغامِ حیات-تحریر: واجد قریشی(ڈنمارک)-,-

0Shares

-,-شاہین کی پرواز: علامہ اقبالؒ کا پیغامِ حیات-تحریر: واجد قریشی(ڈنمارک)-,-

نومبر کی خنک ہوا جب درختوں کے زرد پتوں کو زمین کے سپرد کرتی ہے، تو فضا میں ایک نغمۂ جاوداں بیدار ہوتا ہے۔ یہ موسم ہمیں اس لمحے کی یاد دلاتا ہے جب تاریخ کے افق پر ایک روشنی طلوع ہوئی جس نے اندھیروں کو چیر ڈالا۔9 نومبر، وہ دن جب برصغیر کی مٹی نے ایک ایسے مردِ دانا کو جنم دیا جس نے خوابوں کو تعبیر بخشی، غلام ذہنوں کو خودی کا شعور دیا، اور سوئی ہوئی امت کو بیداری کا پیغام سنایا۔ وہ تھے علامہ محمد اقبالؒ——شاعر بھی، مفکر بھی، اور درویش بھی؛ ایک ایسی صدا جو لفظوں سے زیادہ دلوں میں اترتی ہے، جو آج بھی سالوں بعد روحوں کو جھنجھوڑتی ہے۔اقبالؒ کی زندگی کا مقصد واضح اور درخشاں تھا۔ انسان کو اس کے اصل مقام اور روحانی عظمت سے آگاہ کرنا۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ انسان مٹی کا پتلا ضرور ہے، مگر اس کے سینے میں خدا کا نور دھڑکتا ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک“خودی”محض لفظ نہیں بلکہ وہ الہی جوہر ہے جو انسان کو کائنات کی گردش سے ماورا کر دیتا ہے، بندگی میں آزادی اور فنا میں بقا عطا کرتا ہے۔ اقبالؒ کا پیغام ہے کہ جب انسان اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے، تو وہ تقدیر کا محتاج نہیں رہتا بلکہ تقدیر کا خالق بن جاتا ہے۔ جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

اقبالؒ کا اصل پیغام نوجوانوں کے نام ہے۔ وہ نوجوان جو امت کی امید بھی ہیں اور اس کی تقدیر بھی۔ اقبالؒ کے نزدیک ”نوجوان“شاہین”ہے؛ ایسا پرندہ جو زمین کی زنجیروں میں قید نہیں، جس کی نگاہ افلاک پر ہے اور پرواز بے حد و کنار۔ وہ نوجوانوں کو دنیا کی فانی آسائشوں اور تقلید سے نکال کر عمل، علم اور عشقِ الٰہی کے راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ مومن کا شباب مقصد سے جڑا ہونا چاہیے، کیونکہ جو جوانی مقصد سے خالی ہو، وہ صرف عمر کا موسم ہے، روح کا نہیں۔ ان کا شاہین خوددار ہے، مقلد نہیں؛ وہ دوسروں کی راہوں پر نہیں چلتا بلکہ اپنی راہ خود بناتا ہے۔ جیسا کہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کا جہاں اور

علامہ اقبالؒ کا درد کسی ایک قوم تک محدود نہیں تھا، بلکہ پوری امت کے لیے تھا۔ اُن کی نگاہ میں زوال کی اصل وجہ دشمن کی طاقت نہیں، بلکہ ایمان کی کمزوری اور خودی کی فراموشی ہے۔ اقبالؒ بارہا یاد دلاتے ہیں کہ دشمن کی قوت خطرہ نہیں، اصل خطرہ وہ کمزور یقین ہے جو دلوں سے عمل کا جوش اور مقصد کی حرارت چھین لیتا ہے۔ ان کے نزدیک اگر ایک فرد بیدار ہو جائے، تو پوری قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ملت کی بنیاد دولت یا تعداد پر نہیں، کردار پر ہے؛ اور جب کردار ایمان، اخلاص اور خودداری پر استوار ہو، تو کوئی طاقت زوال نہیں لا سکتی۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اقبالؒ کے تصوف کا رنگ منفرد اور زندگی سے بھرپور ہے۔ وہ خانقاہی گوشہ نشینی کے نہیں، بلکہ عمل اور حرکت کے صوفی ہیں۔ اُن کے نزدیک حقیقی تصوف دنیا سے فرار نہیں بلکہ دنیا میں رہ کر رب سے جڑنے کا نام ہے۔ اقبالؒ عشق کو زندگی کی اصل روح سمجھتے ہیں۔ مگر ایسا عشق جو دل میں حرارت پیدا کرے، جو روح کو عمل پر آمادہ کرے، اور جو بندے کے اندر خدا کی تلاش کو زندہ رکھے۔ ان کے نزدیک عشق وہ روشنی ہے جو بندے کے دل میں خدا کی تجلی بن کر اترتی ہے؛ وہ قوت جو انسان کو خاک سے اٹھا کر افلاک تک پہنچا دیتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

اقبالؒ کا عشقِ رسول ﷺ ان کے فکر و فن کی روح ہے۔ اُن کے نزدیک عشق ہی ایمان کا جوہر ہے، عشق ہی علم کی معراج ہے، اور عشق ہی وہ تخلیقی قوت ہے جو قوموں کے وجود میں حرارتِ عمل اور تازگیِ احساس پیدا کرتی ہے۔ اقبالؒ کے لیے عشق صرف جذبہ نہیں، بلکہ ایک جہاد ہے۔ ایسا جہاد جو نفس کے خلاف ہو، اور جو انسان کو بندگی کی انتہا سے معرفتِ الٰہی کے عروج تک لے جائے۔جب 9 نومبر کی صبح طلوع ہوتی ہے، تو فضا میں ایک مانوس صدا گونجتی ہے:“اٹھ اے مسلمان نوجوان! تُو مایوسی کا اسیر کیوں ہے؟ تیرا مقدر زوال نہیں، عروج ہے۔ اپنی خودی کو پہچان، اپنے اندر کے نور کو جگا، کیونکہ تُو وہ چراغ ہے جو اندھیروں کو مٹا سکتا ہے۔”اقبالؒ کی فکر آج بھی زندہ ہے، کیونکہ اُن کا پیغام وقت کے پیمانوں سے آزاد ہے۔ جب تک خودی کا فلسفہ زندہ ہے، ایمان کی روشنی قائم رہے گی، اور جب ایمان زندہ ہے تو امت کی روح کبھی مر نہیں سکتی۔ اقبالؒ آج بھی امت کے دلوں سے کہہ رہے ہیں:

“جاوید بنو، فانی نہیں۔ شاہین بنو، کرگس نہیں۔ عاشق بنو، مفاد کے غلام نہیں۔”

اقبالؒ زندہ ہیں، کیونکہ اُن کا پیغام زندہ ہے۔ یہ پیغام ہر دور میں نئی نسلوں کو بیداری، خودی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی راہ دکھاتا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں