0

۔،۔میڈم رومی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔میڈم رومی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میرے سامنے اپنے وقت کی خوبرو دلکش ساحرہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے مختلف مشینوں نلکیوں میں لپٹی منہ پر آکسیجن ماسک چڑھا ہوا پڑی تھی میں جوانی اور بڑھاپے کی وہ خوفناک تصوریروں کے درمیان پنڈولم کی طرح جھول رہا تھا آج میں جس میم رومی جی کو ہسپتال کے کمرے میں موت کی دہلیز پر آخری سانس لیتا دیکھ رہا تھا جو وینٹی لیٹر کی وجہ سے سانس لے رہی تھی ڈاکٹر اُس کو ڈرپ لگانے کے لیے مختلف نسوں کو اُدھیڑ رہے تھے جسم کی اِس کاٹ چھاٹ میں رومی جی مردے کی طرح بے حس پڑی تھیں وہ میم رومی جو ہر وقت خوشبوؤں رنگوں زیورات میں حسن کا لشکارہ نظر آتی تھیں جو لباس ایک دفعہ پہن لیتی دوبارہ کبھی نہ پہنتی جو فیشن کے بدلتے رحجانات پر گہری نظر رکھ کر چلتی تھی ہر نیا فیشن اُس کے گھر اور شخصیت سے برآمد ہو تا جو دنیا بھر کے مہنگے پرفیوم صبح دوپہر شام استعمال کرتی مختلف مہنگے پرفیوم ایک دفعہ لگاتی تاکہ مد مقابل کو پتہ نہ چلے کونسا پر فیوم لگایا ہے سیاہ چمڑی میں بیڈ پر پڑی تھی اُس سے جب بھی ملاقات ہوتی تو دیکھتے ہی اُس کے چہرے پر ہزارو ں گلاب چمک جاتے آنکھیں ہزاروں ستاروں سے روشن ہو کر مد مقابل کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتیں کہ دیکھنے والا اپنی قسمت پر رشک کرتا کہ اُس کو میم رومی کی صحبت نصیب ہو ئی ہے میم رومی بے پناہ حسن انداز گفتگو الفاظ کا شاندار چناؤ دلنشیں آواز جو سماعتوں کو شہد کے ٹپکنے کا احساس دلاتی اوپر سے مولانا روم کے الہامی شعر موتیوں جیسے چمکتے دانتوں سے جب موسلا دھار بارش کی طرح برستے تو دیکھنے والا والہانہ طور پر کیف و سرور کے کے ٹو پر حالت و جد میں آجاتا خوبصورت سرائے حسن آواذ شخصیت کے ساتھ جب مولانا روم کی شاعری کا تڑکا لگاتا تو کیف و سرور کے ہزاروں رنگ چاروں طرف پھیل جاتے انسان نئی ہی دنیا اور کیفیت کا شکار ہو جاتا میم رومی ماڈرن صوفیہ ہونے کی دعوئے دار تھی شہر کی اشرافیہ ایلیٹ کلاس کی عورتیں میم کے حلقہ اثر میں تھیں یہ مختلف گھروں میں مولانا رومی کی رات مناتیں جس کو رومی نائٹ کا خطاب دیا جا تا اُس محفل کو چار چاند لگانے کے لیے چرس سگریٹ اور مشروب مغرب سے رگوں کو گرمایا جاتا اب جہاں پر چرس کے سگریٹ اور مشروب مغرب کا دور دورا ہو گا اوپر سے رومی کی شاعری تو قلب و روح خاص وجد میں چلے جانے پھر یہ مصنوعی کشف الہام کے دعوے دار بن جاتیں کہ مولا نا روم کی روح ہمارے درمیان آگئی ہے پھر یہ میوزک کی دھن پر رقص میں گم ہو جاتیں چرس اور شراب کا ملاپ ایک نئی ہی دنیا میں لے جاتا شہر کی ماڈرن عورتیں جو روحانیت تصوف فقیری کی دعوے دار تھیں وہ اِس کلب کی ممبر تھیں میم رومی اِس کلب کی روح رواں تھیں یہ سر عام سگریٹ نوشی کرتیں اور سر عام مولانا روم کی شاعری عشق کا پر چار کرتیں اِن میں اکثریت اپنے خاوندوں کی بالا دستی حکمرانی کے خلاف تھیں ساری ہی خاوندوں سے ناراض اپنے سول میٹ کی تلاش میں کہ میرا سول میٹ کدھر ہے وہ کب آئے گا فلاں جگہ سے وہ آخری بار گزرا تھا اکثر اُس جگہ کا چکر لگاتیں کہ میرا سول میٹ پھر وہاں آئے گا حقیقت میں یہ فرسٹیشن کو چرس اور شراب نوشی کی آغوش میں ڈوب کر ختم کرتی تھیں شادی شدہ ہونے کے باوجود دوسرے مردوں نو عمر لڑکوں سے تعلقات رکھنا گناہ نہیں بلکہ میرا جسم میری مرضی کے نعرے مارتی نظر آتیں زیادہ تر عورتوں نے شادی کے بعد جو دوسرے مردوں سے تعلقات رکھے تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ شادی والا میٹیریل نہیں ہیں وہ مرد اِن کے جسموں سے کھلتے اور اِن کی دولت پر عیاشی کرنے بہانوں پر بہانے بنا کر وقت حاصل کرتے چلے جاتے ایک دوسرے سے جب ملتیں تو فخر یہ کہتیں کہ کتنے سالوں سے خاوند کو ہاتھ نہیں لگانے دیا کیونکہ زیادہ تر ڈپریشن اینگزائیٹی کی مریضہ تھیں اوپر سے چرس کی کثرت سے اِن کے مزاج ہر وقت پارے کی طرح بدلتے رہتے تھے دوسرا کام انہوں نے یہ کیا تھا کہ خاوندوں کو مکمل آزادی دے رکھی تھی ان سے پوچھ گچھ بلکل نہیں ایک طرح سے اِن کے خاوندوں سے یہ معاہدے تھے کہ تم اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیو اور مجھے اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے دو تم مجھے نہ پوچھو میں تم کو نہیں پوچھتی امیر زادیاں تھیں خاوند اِس بات پر خوش کہ میری بیوی نے مجھے آزادی دے رکھی ہے بعض کو تو ایک دوسرے کے عاشقوں کا پتہ بھی چل جاتا تو یہ نظر انداز کر تے دونوں اپنی اپنی زندگی میں مست کیونکہ اِن کی محفلیں اور مشاغل امیروں والے تھے اِس لیے اِن کے حلقے میں عام غریب یا سفید پوش عورت نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس سے تھیں یا پھر پرائیویٹ سکولوں کی ٹیچریں جو بڑی بڑی تنخوائیں لے کر اپنی زندگی عیاشی سے گزارتی تھیں ہر طرف خدا سے دور مذہب سے دوری اور شیطانی تعلیمات عام تھیں تصوف اور روحانیت کو بھی اپنی عیاشی کے لیے استعمال کر تی تھیں کہ ہم تو مولانا روم کی ماننے والی ہیں یہ خود کو رومی کہتیں یا اپنے نام کے ساتھ رومی لگانا پسند کرتی تھیں یہ روایتی صوفیوں درویشوں کے خلاف تھیں جو اسلا می تصوف اور شریعت محمدی ؐ بات کرتے ہیں یہ ماڈرن صوفیوں کو ہی اصل صوفی سمجھتی تھیں میں لاہور آیا تو جوان تھا پینٹ شرٹ کوٹ اور کلین شیو اوپر سے چند کالم نگاروں نے اِسی طرح کالم بھی لکھ دیئے کے ماڈرن صوفی جو پینٹ شرٹ اور کلین شیو ہے خداکے کرم خاص سے شہرت کا دائرہ پھیلا تو کسی نے میرا ذکر میم رومی سے کر دیا ساتھ میں میری تعریف بھی کر دی جس نے میر ی تعریف کی وہ ایک پرائیویٹ سکول میں شوقیہ جاب کرتی تھی مری سے میرے رابطہ میں تھی بہن بنی ہوئی تھی بہت عزت بھی کرتی میم رومی نے میرے بارے میں سنا تو اُس نے فرمائش کی کہ وہ مجھ حقیر فقیر سے ملنا چاہتی ہے لہذا اُس خاتون نے مجھے کہا کہ میری دوست جو خود بہت بڑی صوفیہ ہیں مولانا روم کی عاشق وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں ساتھ ہی میم رومی کی بہت زیادہ تعریفیں کہ وہ روحانیت کے بلند مقام پر فائز ہیں ان کو مولانا روم کی مثنوی حفظ ہے بلکہ وہ پنجابی شاعروں اور مولانا کو انگریزی ترجمے کے ساتھ چھاپتی بھی ہیں پھر یہ انگریزی ترجمہ شدہ شاعر اپنے حلقہ احباب میں تحفے کی شکل میں دیتی بھی ہیں میں شروع کا بے نیاز مصروف وعدہ کر تا رہا ملوں گا جب کافی دن گزر گئے میری بہن بنی ہوئی خاتون ایک دن بولی سر میں بہت وعدے کر چکی ہو ں اور شرمندہ بھی آپ خدا کے لیے میرے ساتھ میم رومی جی کے پاس چلیں میں نے اُن سے وعدہ کیا ہے آج میں نے نہیں جانا آپ کو ہر حال میں میم رومی کے پاس جانا ہو گا لہذا میں لاہور کے مہنگے ترین علاقے میں چار کنال پر مشتمل لگثری کوٹھی میں پہلی بار میم رومی سے ملنے اُن کے گھر پہنچا ہمیں جہازی سائز کے ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر اوردیکھ کر میم کے اعلیٰ ذوق کا پتہ چل رہا تھا تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نہایت خوبرو دلکش بوائے کٹ بالوں میں ہاتھ میں مشروب مغرب کا جام پکڑا انگلیوں میں چرس کا سگریٹ تھاما بلکہ وقفے وقفے سے کش لگاتی سامنے آکر بیٹھ گئی ہوا میں چرس والا دھواں اگلا غور سے میری طرف دیکھا اور بولی جناب میں میم رومی ہوں (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں