0

۔،۔ معتو ب سے رویہ ۔طارق حسین بٹ شان-،۔

0Shares

۔،۔ معتو ب سے رویہ ۔طارق حسین بٹ شان-،۔

۸ فروری انتخابی مشق کا نقطہ عروج ہے۔کون جیتے گا اور کون ہارے گا اس راز سے بھی پردہ اٹھ جائیگا۔کیا جانفشانی کی وہ مشق جو ایک عرصہ سے ایک مخصوص جماعت کے خلاف روا رکھی جا رہی ہے اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی یا پھر تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم جائے گا؟ پاکستان میں ہمیشہ مقبول قیادت نے ہی وزا رتِ عظمی کا تاج پہنا ہے لیکن اندیشہ ہے کہ یہ پہلے انتخابات ہوں گے جس میں کوئی غیر مقبول قیادت اس منصف پر بزورِ بازو فائز کر دی جائیگی۔اگر غیر جانبدار سرویز کا جائزہ لیا جائے تو معتوب جماعت اپنے حریفوں سے کوسوں آگے ہے۔اس وقت اس کی مقبولیت اپنے پورے شباب پرہے۔کے پی کے میں تو اسے سرکرنا ناممکن ہے جبکہ پنجاب میں اسے کسی حد تک نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔یہ کام بھی انتہائی باریک بینی سے سر انجام دینا ہو گا وگرنہ ساری بازی الٹ جائیگی اورلینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ مقتدرحلقو ں کی فہم و فراست پر تو کسی کو کوئی شک نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے مشکل مراحل با آسانی طے کر لیتے ہیں لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ ملک کی نوجوان نسل سزا یافتہ شخص کے علاوہ کسی دوسرے کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ نوجوان تو آگ ہوتے ہیں لہذا آگ سے محاذ آرائی دانش مندی نہیں ہوتی کیونکہ آگ کا کام جلانا ہو تاہے اور پھر جلانے والی شہ سے ٹکراؤ مہنگا پڑ جاتا ہے۔الیکشن والے دن کیا ماحول ہو گا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ایک اندازہ ہے کہ جو رائندہِ درگاہ ہیں وہ رائندہِ درگاہ ہی رہیں گے اور ان کے مخالفین مسند پر بٹھا دئے جائیں گے۔اس طرح کے کسی بھی ممکنہ فیصلہ کا نتیجہ انتشار کی شکل میں سامنے آئیگا جو ملکی معیشت اوراس کے استحکام کو بری طرح سے متاثر کریگا۔ملکی اور عالمی ر ئے عامہ اس طرح کے انتخابات کو تسلیم نہیں کریں گے لہذا ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھا جائے۔ہمارے مقتدر حلقوں کو فیصلہ کرنا ہو گاکہ انھیں ذاتی اقتدار عزیز ہے یا ایک مستحکم اور پر امن پاکستان عزیز ہے؟۔۴۲۰۲؁ کے انتخابات پہلے انتخا بات ہیں جس میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اپنے جماعتی انتخابی نشان کے بغیر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔میں تو اسے خوش آئیند ہی کہوں گا کہ اس جماعت نے بائیکاٹ کا راستہ نہیں اپنایا اور نہ ہی احتجاجی سیاست کا راستہ اختیار کیا ہے وگرنہ ملکی سالمیت کا جو حشر ہوتا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔زعمِ قوت اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ملک کے ایک با اثر اور فعال طبقے کو انتخابات کی مشق سے خارج کرنا کارِ محال ہے اور یہ محال ہی رہے گا۔،۔عدالتی جنگ کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ توشہ خانہ کے مقدمات ملک کے مختلف قائدین پر دائر ہیں اور وہ کئی سالوں سے عدالتوں میں زیرِ سماعت چلے آ رہے ہیں جن پر تا حال کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکا کیونکہ مقتدر حلقے ایسا نہیں چاہتے لیکن نجانے ایک معتوب شخص سے مقتدرہ کو کتنی محبت ہے کہ اس کا مقدمہ لگا یا گیااور اس کی شریکِ حیات کو بھی اس میں لپیٹ لیا گیاحالانکہ توشہ خانہ سے اس کا کیا لینا دینا تھا۔ قانونی طور پر معتوب شخص ہی ہر طرح کی سزا کا سزا وار تھا لیکن اسے ذہنی اذیت دینے کی خاطر شائد اس کی شریکِ حیات کو اس میں لپیٹنا ضروری تھا۔لیکن کیا وہ اس طرح ٹوٹ جائے گا یا ضد میں آ کر پلٹ کر وار کرے گا۔دونوں صورتوں میں نقصان ریاست کا ہو گا لہذا ضروری ہے کہ ایسی صورتِ حال سے بچا جائے۔ بلال بھٹو زرداری اگر وزارتِ عظمی کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو اس کے وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت بن کر نہیں ابھر رہی۔ پی پی پی شائد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے اور پھر آزاد امیدواروں کی مدد سے مرکز میں اپنی حکومت قائم کر لے۔اگر پی ٹی آئی جیت جاتی ہے تو پھر لازم ہو گا کہ اسے حکومت سازی کا موقعہ دیا جائے۔ہمارا ماضی غلطیوں سے بھرا پڑا ہے۔خود ساختہ فیصلے، خودساختہ مقدمات،خود ساختہ اکثریت اور خود ساختہ اقتدار نے ہمیں خون کے آنسو رلائے ہیں۔پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔ یہ ۵۲ کروڑ انسانوں کی ملکیت ہے۔اوراس کے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا حتمی اختیار انہی سوختہ سامانوں کے پاس ہے لہذا ضروری ہے کہ ان کے مینڈیٹ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی بجائے ان کی رائے کا احترام کیا جائے۔ہم نے کئی دفعہ پہلے بھی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے تماشے دیکھے ہیں جس کے ملکی سالمیت پربڑے منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔میڈیا کے اس دور میں جہاں خبر پر لگا کر اڑ جاتی ہے ڈنڈے کے زور پر نتائج کو بدلنا ممکن نہیں ہو گا لیکن اگر پھر بھی کچھ حلقے بضد ہیں کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں تو ہمیں ان کی دور بینی پر افسوس ہو گا۔ دولت مند تو دولت کی چکا چوند سے خریدو فروخت کی منڈیاں ضرور سجا کر بیٹھ گے ہیں۔کھلے عام خریدو فروخت ہو گی اور اپنے اقتدار کی خاطر ضمیر فروشی سے دریغ بھی نہیں کیا جائے گا۔ چھانگا مانگا کے کلچر کو متعارف کروانے والوں سے کسی اعلی کردار کی توقع کرنا تو عبث ہے لیکن پھر بھی عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ زمانہ بہت آگے نکل چکاہے۔جو کچھ پہلے ہوتا آیا ہے اب نہیں ہو سکتا کیونکہ اب شعوری طور پر عوام بہت بلند ی پر کھڑے ہیں۔انھیں اپنے حق کا بھی ادراک بھی ہے اور اس حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں سے نپٹنے کا ہنر بھی لہذا ہماری مقتدرہ کو ان منڈیوں سے نہ صرف دور رہنا چائیے بلکہ ایسا کرنے والوں کو متنبہ بھی کر دینا چائیے کہ وہ انتخابی نتائج کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کریں۔ جو جیت جائے اس کی جیت کو شکست میں بدلنے کی مذموم کوشش نہ کی جائیں۔معتوب کے جیتنے سے گنبدِ نیلو فری زمین پر نہیں گر پڑے گا۔ معتوب پہلے بھی اقتدار میں تھا لہذا اس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ سمجھ نہیں آتی۔ایک شخص جسے۴ اپریل ۹۷۹۱؁ کو دیش دروہی اور قاتل کہہ کر سرِ دار کھینچ دیا گیا تھآج دنیا بھر کے دانشوروں کی نظر میں قوم پرست قائد کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کے کٹر مخالف بھی اس کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ایک آمر نے اپنے ذاتی اقتدار کی خاطراسے جسمانی طور پر اس کی قوم سے اسے لگ کر دیا لیکن ا س کی محبت کو عوام کے دلوں سے نہ نکال سکا کیونکہ وہ سچا،بہادر،ایماندارتھا۔وہ محبِ وطن اور جرات مند تھا اور عالمی سامراج کی نگاہوں میں کھٹکتا تھا۔اس کی موت سے ملک و قوم کا جو نقصان ہوا اسے کوئی پورا نہیں کر سکا۔سیاست میں دوسروں کو جسمانی طور پر ختم کر دینا مقصود نہیں ہونا چائیے بلکہ سیاسی ممکنات سے اپنے لئے جیت کی راہیں تلاش کرنے کی کاوشیں کرنی چائیں اور کوئی مقبول بیانیہ تشکیل دینا چا ئیے جو عوام کی دھڑکنوں کا آئینہ دار ہو۔ اقتدار تو ہرجائی ہوتا ہے اسے دل کا روگ نہیں بنایا جا ناچائیے۔ ۸ فروری کو مقتدرہ کی ڈیوٹی ہے کہ وہ قوم کی آواز پر پہرہ دے کیونکہ اسی میں پاکستان کی سالمیت کا راز پنہاں ہے۔ جو ریاست اپنی قوم کے جوانوں پر بندوقیں تا ن لے،انھیں رزم گاہ میں کھینچ کر لے آئے اور پھر ان کے خونِ نا حق سے دھرتی کو گلاب رنگ کر دے تو پھر مجھے بتایا جائے کہ ایسی ریاست کی بقا کیسے ممکن ہوتی ہے؟ نوجوان ہماری قوم کا درخشاں باب ہیں، ان کے خیالات کا احترام کیا جانا چائیے اور ان کے ساتھ محبت اور شفقت کامظاہرہ ہونا چائیے کیونکہ پاکستان کا مستقبل یہی نوجوان نسل ہے۔ اب اگرنوجوانوں کا دل کسی خاص قائد کیلئے دھڑ کتا ہے تو اس قائد سے بات چیت کیجئے۔اسے قائل کیجئے،وہ کوئی ایسا مطالبہ تو نہیں کر رہا ہوتاجو ملکی سلامتی کے منافی ہے۔کل تک تو وہی مقتدرہ کا ڈارلنگ تھا اور ملکی معاملا ت انتہائی خوش اسلوبی سے چل رہے تھے۔ ذاتی مفادات اپنی جگہ لیکن کوئی ذاتی مفاد قومی مفاد سے بلند نہیں ہوتا لہذا سب کو ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ اسی میں قوم کی نجات ہے۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں