0

۔،۔ سفیر پاکستان عزت ماآب سیدہ ثقلین کی زیر صدارت فرینکفرٹ میں محفل مشاعرہ کا اہتمام۔نذر حسین۔،۔

0Shares

۔،۔ سفیر پاکستان عزت ماآب سیدہ ثقلین کی زیر صدارت فرینکفرٹ میں محفل مشاعرہ کا اہتمام۔نذر حسین۔،۔

٭سفیر پاکستان عزت ماآب سیدہ ثقلین،قونصلیٹ جنرل اسلامیہ جمہوریہ پاکستان۔ زاہد حسین۔ہیڈ آف چانسلری شفاعت کلیم خٹک،اے آر وائی اینکر پرسن اقرار الحسن،سید علی رضاء، ڈاکٹر آریان ہائیڈلبرگ یونیورسٹی، اس کے علاوہ اتنی ہستیاں یہاں کہکشاں کی شکل میں موجود ہیں،ان کا نام ایک ایک کر کے لینا مشکل ہے۔یہ تمام لوگ تہذیب کے محافظ ہیں،ادب کے علمبردار ہیں، انسانیت کے پرختار ہیں۔ان کا اس محفل میں ہونا ہمارے لئے باعث فخر ہے٭

شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/ڈورن بُش۔ سفیر پاکستان عزت ماآب سیدہ ثقلین کی زیر صدارت فرینکفرٹ میں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا،یہ محفل مشاعرہ ذہانتوں کو جملوں میں تبدیل کر دینے کا سلیقہ جاننے والی شخصیت سید اقبال حیدر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔محفل میں عوام کو اپنی گفتگو میں بصیرتوں کو تقسیم کر دینے والی شخصیات بھی موجود تھیں، جن کی عظمتوں کو نہ تسلیم کرنا اُردو کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ ایسے مشاعروں کے ذریعہ سلجھی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں، مشاعروں کے ذریعہ سکون کا پیغام دیا جاتا ہے،، اُردو زبان کا تعلق درباروں اور خانقاہوں سے بھی ہے،بازاروں سے بھی ہے،یہ غالب کی چوکھٹ کی بھی زبان ہے، جو بازاروں میں ہو رہا ہے اس پر بھی شاعروں کی نظر ہوتی ہے٭تم کو تو صرف اپنے گھرانے کی فکر ہے٭شاعر ہوں مجھ کو سارے زمانے کی فکر ہے٭۔ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سید اقبال حیدر کبھی کبھی ایک بڑا خوبصورت مشاعرہ کروا کر بازی لے جاتے ہیں۔ محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کا اعزاز صفا راجپوت کو ملا،مالین راجپوت نے اُردو میں ترجمہ کیا، سید اقبال حیدر نے ہیومن ویلفیئر ایسوسی ایشن کا تعارف کروایا کہ وہ پچھلے (پینتیس 35 سال) سے ادبی اور سماجی کارنامے سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب تک نامور ادبی شخصیات۔فہمیدہ مرزا، زاہد حنا،پروفیسر سحر انصاری،فتخار عارف،امجد سلام امجد(مرحوم)، غضنفر ہاشمی،پروفیسر انور مسعود،محترمہ شبانہ اعظمی،اس کے علاوہ بھی کئی شخصیات ہمارے مشاعروں کی زینت بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر آریان ہوپف جو ہائیڈل برگ سے تشریف لائے تھے،انہوں نے سید اقبال حیدر کا شکریہ ادا کیا،سیدہ ثقلین،زاہد حسین کو خصوصی ویلکم کیا،ان کا کہنا تھا کہ گوئٹے نے تقریباََ (دو سو سال) قبل اپنے دیوان میں کہا تھا جس سے علامہ محمد اقبال بھی متفق اور متاثر تھے ٭مشرق اور مغرب الگ نہیں ہو سکتے جو خود کو اور دوسروں کو جانتا ہیوہ پہچانے گا۔ واضح رہے کہا جاتا ہے کہ اقبال نے صرف تین مہینوں میں جرمن زبان سیکھی، ان کے قیام سے لے کر آج تک ہائیڈل برگ کو علامہ اقبال سے منسلک کیا جاتا ہے،ہائیڈل برگ کے شہر میں کئی جگہوں پر اقبال کے اس قیام کی یادگاریں موجود ہیں۔دریائے نیکر کے کنارے میلوں لمبی سڑک ٭اقبال اُوفرIqbal Ufer۔ اقبال ہاوُس Iqbal Haus٭ان کا کہنا تھا کہ اگر وئٹے اور علامہ اقبال پر لکھا جائے تو سال ہاسال گزر جائیں گے۔ اس کے بعد کومل ملک نے ڈاکٹر پروفیسر شاہد عالم کا پیغام پڑھ کر سنایا۔بلجیئم سے تشریف لانے والے علی رضا سید جو پچھلی چار دہائیوں سے برسز میں مقیم ہیں،آپ نے پچھلے کئی برسوں سے کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور یہ کہا جائے کہ اس مشن کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے تو کم نہ ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ جو کشمیر کے اندر مظالم ہو رہے ہیں ہم اس کے بارے میں یورپین پارلیمنٹ تک پہنچاتے ہیں۔جہاں تک تعلق ہے علامہ اقبال کا جن سے میری روحانی وابستگی ہے کیونکہ وہ بھی کشمیری تھے اور میرا تعلق بھی اسی جنت نظیر خطے سے ہے،اقبال کو کشمیر سے بے پناہ محبت تھی کہ اس کا اظہار انہوں نے اپنے کلام،خطوط اور عمل سے صحیح موقع پر کیا،انہیں اس پر ناز تھا کہ ان کی شریانوں میں دوڑنے والا لہو کشمیر کے چناروں کی طرح سرخ ہے۔اس کا تذکرہ فارسی کا شعر بھی کرتا ہے۔ میرا بدن گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے،سفیر پاکستان عزت ماآب سیدہ ثقلین کے متعلق سید اقبال حیدر کا کہنا تھا کہ آٓپ کو بھی شعر لکھنے،کہنے اور پڑھنے کا بھی شوق ہے۔ سیدہ ثقلین نے تعارف کا شکریہ ادا کیا ان کا کہنا تھا کہ میں گورنمنٹ کی ادنہ سی ملازم ہوں،اس ادب شناز محفل میں پہلی بار حاضر ہوئی ہوں۔یہاں آ کر پتہ چلا کہ پاکستان اور جرمنی کی بنیاد رکھنے والے اقبال اور گوئٹے تھے، اقبال نے پاکستان کی بنیاد رکھی گوئٹے نے اسلام کے ساتھ رکھی۔گوئٹے اور اقبال کا تعلق اتنا گہرا ہے،پیام مشرق جس کو اسکول میں پڑھتے تھے۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی اور ہم مل کر (150 ویں) سالگرہ منانا چاہتے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ اس کو مل جل کر بہترین طریقہ سے منا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی کلچر پروگرام کریں۔ دوسرے سیشن میں اقبال نے اپنی غزل سنائی۔کوئی مختار نظر ہی نہیں آتا ہے کہیں۔اہل طوفاں کسے زنجیر پہنانے جائیں۔شفیق مراد۔تھے کتاب زندگی پر نام دونوں کے لکھے۔ بن گیا وہ داستاں میں داستاں کا اقتبار۔حسن کچھ یوں گویا ہوئے۔ کسی روز آ جاوُ ملنے۔ چائے ساتھ پیئیں گے۔ پیالی سے اُٹھتی بھانپ کو یوں ہی تکتے تکتے۔تم کو سناوں وہ تمام صحیفے۔حیدر نقوی کچھ یوں گویا ہوئے۔ شہر کی آگ میں کتنے یہ خواب باقی ہیں۔جو کھل سکے نہ تھے اب تک گلاب باقی ہیں۔ شمیم شب نے کیا شب کو بے سرو ساماں۔ خیال قید تھا اب تک حجاب باقی ہے۔سچی شاعری کے سچے شاعر عدنان محسن پاکستان سے اعلی تعلیم کے سلسلہ میں ہائیڈل برگ میں مقیم ہیں وہاں (پی ایچ ڈی) کر رہے ہیں۔ کب میری جان سدھرنے کے لئے زندہ ہیں۔ ہم تیرے عشق میں مرنے کے لئے زندہ ہیں۔ دشت و دریا کے تھپیڑوں سے الجھنے والے۔تیری بستی سے گزرنے کے لئے زندہ ہیں۔٭ سوکھی ہوئی بیلوں پے اترنے لگا سبزہ٭اس دست دل آویز نے دیوار کو تھاما ٭لڑتے ہوئے سالار کو یاد آیا کوئی زخم٭اک ہاتھ سے دل ایک ہاتھ سے تلوار کو تھاما۔عاطف توقیر نے محفل کا سماں کچھ یوں باندھ دیا۔ ٭وہ زندگی سے کیا،دھنواں اُڑا کے رکھ دیا ٭مکاں کے اِک ستون نے مکاں کو گرا کے رکھ دیا٭کسی دیئے کی طرز سے گزر رہی ہے زندگی٭یہاں جلا کے رکھ دیا وہاں بجھا کے رکھ دیا۔ اقرار الحسن کا کہنا تھا کہ عدنان محسن کا سینئر ہوں اور عاطف توقیر کا جونیئر ہوں۔خُدا کا شکر کہ اس نے میری ہنسی لے لی٭وہ مجھ سے نعمت گریا بھی چھین سکتا تھا٭مشاعرے کے اختتام پر مہمانوں کے لئے ڈرنکس اور سنیکس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس طرح سے یے محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں