0

-,-بھارتی جبر کا دن -(پہلو۔ صابر مغل) -,-

0Shares

-,-بھارتی جبر کا دن -(پہلو۔ صابر مغل) -,-

اگست 2019 سے تقریباً ایک ماہ قبل ہی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں پراسرار قسم کی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا کشمیریوں میں اضطراب۔ بے یقینی اور بے چینی ابھرنے لگی یہ بات بھی سامنے ا رہی تھی کہ مودی حکومت آرٹیکل 370 کو ختم کرنے جا رہی ہے جس کے تحت کشمیر کی بطور ریاست جداگانہ۔ آزادانہ اور خصوصی حثیت ختم ہوجائے گی بے چینی کی اس صورتحال میں کشمیر میں تعینات 15ویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جے ایس ڈھلوں۔ کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ اور سی آر ایف سی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار حسن نے مشترکہ کانفرنس میں یہ بتایا کہ یاترا کے راستوں ہر دراندازوں کی جانب سے چھپایا گیا بھاری اسلحہ و بارود برآمد ہوا ہے جس وجہ سے فورسز کی تعیناتی کی جا رہی ہے 29 جولائی کو حکومت نے کشمیر میں مزید بھاری نفری تعینات کر دی۔ پولیس کو حکم ملا کہ اپنے اپنے علاقے کی سبھی مساجد کے اماموں و انتظامیہ کی تفصیل دیں اس وقت سری نگر میں تعینات ایس ایس پی حسیب مغل نے کہا کہ ایسا عموماً ہوتا رہتا ہے کیونکہ خفیہ اطلاعات کے مطابق امرناتھ یاترا پر بہت بڑے حملے کا تھریٹ الرٹ ہے اس وقت یاترا میں ابھی 12 دن باقی تھے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں ہندو یاتریوں۔ سیاحوں اور غیر کشمیری طلباء کو کشمیر سے واپس نکل جانے کا حکم ملا تو کشمیر میں کھلبلی سی مچ گئی۔ 5 اگست کی صبح مقبوضہ کشمیر کے رہائشی اپنے گھروں سے نکلے تو دیکھا ہر گلی محلے چوک سڑک اور شاہراہ ہر سیکیورٹی فورسز کی اتنی بھاری تعداد تعینات اور الرٹ جیسے کسی اور ملک نے حملہ کر دیا ہو معلوم ہوا کہ اسی رات 10 لاکھ فوجی جوان کشمیر میں پہنچا دئیے گئے تھے۔ اسی روز دہلی لوک سبھا میں وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک قراداد پیش کی جس پر صدر پہلے ہی دستخط کر چکا تھا قانون بن چکا تھا بس دکھاوا کے طور پر ایوان میں یہ قرارداد پیش کی گئی قراداد کے مطابق بھارتی جنتا پارٹی کی انتہا پسند حکومت نے انڈین لاء میں سے آئین کی شق 370 کو ختم کر ڈالا جس سے کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کر دی گئی۔ خاص درجہ کوئی معمولی نہیں بلکہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے انڈیا کے ساتھ کشمیر کا الحاق ہی ایسی شرط پر ہوا تھا راجہ ہری سنگھ نے تقسیم بر صغیر کے موقع پر پہلے خود مختاری کا اعلان کیا مگر جلد ہی کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا راجہ ہری سنگھ کی شرط پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے شق 370 کو شامل کیا گیا 1950 میں انڈیا نے اس شق کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنا کر کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا۔ہندو انتہا پسند و قوم پرست جماعت نے برملا کہا کہ ہم طویل عرصے سے ان تمام حفاظتی دیواروں کو منہدم کرنے کی کوشش میں تھے جو جموں و کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں۔ اس فیصلے سے کشمیری ریاست مرکز کے زیر اہتمام دو علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں منقسم ہو گئی جن کا انتظام اب کوئی وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے جموں کی اسمبلی کو بحال رکھا گیا مگر اس کی مدت 6 سے 5 سال کر دی گئی۔ماضی میں تقریبا 70 سال تک دو کٹھ پتلی خاندان عبداللہ اور مفتی انڈیا کا ایجنڈا لے کر کشمیر میں بر سر اقتدار رہے اس صورتحال کے بعد انڈیا کی مختلف ریاستوں میں سے لوگ کاروبار کرنے۔ جائداد خریدنے اور مختلف محکموں میں بھرتی ہو سکتے ہیں اور ہوچکے ہیں۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کی اطلاع ملتے ہی پورا کشمیر سراپا احتجاج بن گیا وہ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے کشمیری فورسز نے پوری قوت سے پہلے پورے کشمیر کو منجمد کر دیا ذرائع آمدورفت بند۔ ائیر پورٹ بند۔ ٹرین سروس بند۔ ٹرانسپورٹ بند۔ شاہرائیں بند۔ گلیاں بازار بند۔ انٹرنیٹ سورس بند۔ موبائل بند یہاں تک کہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار لینڈ لائن فون بھی بند سیاستدانوں و اہم شخصیات کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا پوری وادی چھاونی میں تبدیل جرات مند و ایمانی قوت سے لبریز کشمیریوں کو باہر نکلتے ہی انہیں گولیوں۔ پیلٹ گنز اور أنسو گیس کے بے دریغ استعمال کا نشانہ بنایا گیا کئی دن جاتی رہنے والے اس تاریخی احتجاج میں ہزاروں کشمیری شہید۔ ہزاروں ہی زخمی۔ ہزاروں ہی پابند سلاسل۔ٹارچر سیل کی صعوبتیں الگ برداشت کرتے رہے۔ دنیا کے اس خوبصورت ترین اور جنت نظیر سرسبزوشاداب خطے کو فسطائیت و ظلم و جبر نے خون سے سرخ کردیا اس بار ماضی کے بر عکس کئی گنا زیادہ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا ہر گھر میں چھاپے نوجوانوں کی گرفتاری پھر ان میں سے اکثریت کو درانداز بنا کر جنگلوں میں بھون ڈالا گیا عورتوں کی عصمت دری کی گئی دنیا کی اس بد ترین ریاستی دہشت گردی پر پوری دنیا کی مجرمانہ خاموشی انسانیت دشمنی بالخصوص مسلم دشمنی کی غماز تھی۔ امت مسلمہ کے کچھ لیڈران نے مذمتی بیان داغے۔ ایل او سی میں مذمت کی کاروائی ہوئی۔مگر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ 5 اگست 2019 جس کو پانچ سال ہو چکے ہیں ایک سیاہ ترین دین جس روز انتہا پسند حکومت نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں پار کر ڈالیں۔ کشمیریوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے طویل سماعت کے بعد مایوس کن فیصلہ دیا۔ اس عرصہ میں بھارتی فوج نے ایل او سی پر بھی بزدلانہ کاروائیوں میں شدید اضافہ کر دیا سول آبادی نشانہ بنائی جاتی رہی جس کا پاک فوج نے منہ توڑ جواب دیا اس اشتعال انگیزی کا بنیادی مقصد دنیا کو بآور کرانا تھا کہ دراندازی ہو رہی ہے۔ پاکستانی قوم جن میں سب سے بڑھ کر آزاد کشمیری ہر سال 5 اگست کو محصور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اس دن کو بطور یوم سیاہ مناتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں