-,-دلدل -(پہلو۔ صابر مغل)-,.-
دلدل اس زمین کو کہتے ہیں جو پانی کے اثر سے اتنی نرم اور لیس دار ہو گئی جس میں پاوں دھنس جائے۔نرم اور دھنسنے والی زمین جو پاوں پڑنے پر نیچے سے بیٹھے۔ دلدل سے مراد وہ مصیبت یا پریشانی جس سے نکلنا مشکل بلکہ ناممکن ہو ایسی زمین کو کیچڑ سے بھری۔ چیلا۔ خلاب اور کیچڑ بھی کہا جاتا ہے۔ایک ایسی زمین جو سطح تک پانی سے تر ہو مگر اوپر پانی نمودار نہ ہو دریاوں کے سیلابی ریلے پانی سے میدانی علاقے کا کچھ حصہ عام طور پر دلدل بن جاتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کی طرح میٹھے پانی کے دلدلی جنگلات مستقل طور پر پانی سے ڈوب جاتے مگر نیچے خطرناک دلدل ہوتی ہے۔ عالمی سطح ہر میٹھے پانی کے دلدلی جنگلات جنوب مشرقی ایشیا۔ استوائی افریقہ اور جنوبی امریکا میں پائے جاتے ہیں جس کے سب سے بڑے علاقے دریا ایمیزون کے طاس کا حصہ ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں یہ دلدلی میدان پورے خطے میں پائے جاتے ہیں۔ دلدلی ایریا میں بعض جانور اپنے شکار کو ایسے حالات میں دھکیل دیتے ہیں جہاں وہ مٹی یا دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ سائنسدان چاہلز کے مطابق صدیوں قبل لوگوں کو قبرستانوں میں دفنانے کی بجائے انہیں دلدل میں پھینک دیا جاتا ان کے نزدیک دلدل انسانی پہنچ سے باہر ایک طاقتور جگہ ہے جہاں مرنے والے کو رکھا جا سکتا ہے۔ دلدل بارے یہ خیال گذشتہ روز وطن عزیز ہر قرضوں سے متعلق ایوان بالا جہاں ملکی تقدیر کے شاہسوار تشریف فرما ہوتے ہیں میں پیش کی جانے والی ہوش ربا رپورٹ جس کے مطابق 2008 میں سرکاری قرض کا حجم 1۔ 6 کھرب روپے تھا یہ حجم 2024 میں 5۔ 67 کھرب سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور اس میں مزید اضافہ تیزی سے جاری ہے۔ یہ تفصیلات وزارت خزانہ نے جمع کرائیں جس میں 2008 سے لے کر 2024 تک لئے گئے قرضوں کا حجم بتایا گیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق جون 2008 میں اندرونی قرضہ 3۔ 3 کھرب اور بیرونی قرضہ 9۔ 2 کھرب روپے۔2013 میں 7۔12 کھرب روپے۔2018 میں 25 کھرب روپے ہوا 2019 میں اس قرضے کی پرواز 7۔32 ارب روپے تک جا پہنچی۔2022 کے شروع میں یہ حجم 2۔ 49 کھرب جبکہ 2023 میں سرکاری قرضہ 9۔ 62 کھرب روپے کی حد کو چھو گیا۔ 2022 میں 4۔9 کھرب اور 2023 میں 6۔13 روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔جون 2024 میں اندرونی قرضہ 4۔ 34 کھرب روپے اور بیرونی قرضہ 1۔ 24 کھرب تھا صرف گذشتہ اڑھائی برس کے دوران بیرونی و بیرونی قرض میں 13 – 13 کھرب روپے اضافہ ہوا۔ ان 16 سالوں میں مجموعی طور پر اندرونی قرضوں میں 2۔ 40کھرب اور بیرونی قرضوں میں 3۔ 21 کھرب روپے کا حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان 16 سال میں پرائمری خسارے کی وجہ سے 2۔ 10 کھرب کا نقصان ہوا۔ اس مدت میں سود اخراجات کی وجہ سے 3۔ 23 کھرب روپے اور دیگر معاملات کی وجہ سے بھی قرضوں میں 9۔ 18 کھرب روپے اضافہ ہوا (اب یہ دیگر معاملات کون سے ہیں ان کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں)۔اس قدر قرضے کے حصول کے بعد مہنگائی کی شرح 96۔ 17 فیصد کی خطرناک شرح تک پہنچ چکی ہے اس مہنگائی کی چکی میں پسنے والوں کی بہت بڑی تعداد وہ ہے جن کی ماہانہ آمدن 23 ہزار سے لے کر 30 ہزار روپے تک ہے۔ حکمرانوں نے ملک و قوم کو قرض کے تاریخی بوجھ تلے لاد دیا بلکہ اسے تاریخی نہ کہا جائے تو ٹھیک رہے گا کیونکہ تاریخ ابھی نامکمل ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنا قرضہ اس قدر قرضہ وہ سب جاتا کدھر ہے؟ عوام تو رل رہی ہے خود کشیاں کر رہی ہے کل بھی چشتیاں کے ایک محنت کش نے بل جمع نہ ہو سکنے اور غربت کے باعث خود کشی کے ذریعے موت کو گلے لگا لیا۔ قوم کے سامنے اس ایوان بالا میں رپورٹ پیش کی جانی ضروری تھی مگر ساتھ یہ بتانا بھی لازم تھا کہ ان قرضوں کے حصول سے عوام کو کیا فائدہ پہنچایا گیا۔ کیا ریلیف دیا گیا۔ کیا کیا بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ ان کی روزی روٹی کو کتنا آسان بنایا گیا۔ قوم کو بتایا جائے آخر اس قرض کو اس نہج تک پہنچانے کی بنیادی وجہ کیا اور ذمہ داران کون ہیں؟ مان لیتے ہیں یہ سب ریاست کو چلانے کے لیے کیا گیا مگر کیا عوام اس ریاست سے باہر ہے یا دشمن ملک بھارت کے ہاشندے ہیں پوری قوم مقروض۔ ہر اہم چیز گروہی۔ ہر چیز کی قیمت آسمان پر۔ بے روزگاری لاتعداد۔ روز مرہ استعمال کی ہر چیز نہ صرف پہنچ سے باہر بلکہ ہمارے اداروں کی کمال مہربانی اور شفقت سے سب کچھ مضر صحت زہر کی شکل میں دستیاب ہے۔کچھ تو بتائیں اس قوم کی حالت کس نے سدھارنی ہے اور کیسے سدھارنی ہے یا قرضوں کے ذریعے اپنی ہی فکر ہے۔ کتنا کھالو گے۔ کتنا ذخیرہ کر لو گے۔ کتنی جائدادیں بنا لو گے حرام خوری آپ کریں کھائے گا کوئی اور۔ کیوں اپنی اولادوں کی وجہ سے جہنم خرید کر غریب کا جینا حرام کر رکھا ہے اتنے قرضے لے کر ہماری حالت کا یہ حال ہے تو مزید قرض کے بعد ہم تو زندہ درگور ہو جائیں گے۔ خدارا اپنی عاقبت اور ہماری زندگی کو درست کریں۔ ہمیںدن بدن کیوں جاں لیوا دلدل میں دھکیل رہے ہیں یہ دلدل ایسی نامراد ہے جس میں انسان چاہیے وہ کوئی حکمران ہو۔ ساہوکار ہو یا ہم جیسا غریب جس کے بھی پاوں اس پر پڑے وہ اہستہ اہستہ دھنسے ہی چلے جاتے ہیں صدیوں قبل تو انسان کی میت کو دلدل کے حوالے کیا جاتا ہے یہاں تو زندہ انسانوں کو ٹانگوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھلا کر۔ اچھال کر موت کی اس وادی میں پھیکنے کا عمل جاری ہے۔