0

۔،۔مدعی لاکھ بُرا چاہے۔اے آراشرف بیورو چیف جرمنی۔،۔

0Shares

۔،۔مدعی لاکھ بُرا چاہے۔اے آراشرف بیورو چیف جرمنی۔،۔
جناب آصف علی زرداری کے دوسری بارصدر پاکستان منتحب ہونے پرجیالوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اس تاریخی انتحاب پر مسرت کا اظہار کرنے کیلئے پاکستان پیپلزپارٹی جرمنی کے صدر سید زاہد عباس،سیکرٹری جنرل چوہدری فاروق،نائب صدر جناب کفائت سلہریا، ایڈیشنل سیکرٹری سید جعفرعباس اور سیئنیرراہنما جناب راسد نسیم میرزا نے۴۲ مارچ کو آفن باخ کے ایک مقامی ہوٹل میں ماہ صیام کی نسبت سے ایک پُرتکلف افطاری کا اہتمام کیا ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام مرکزی اور صوبائی عہدیدارن کو مدعوع کیا گیا ہے۔ جرمنی یا پاکستان میں موجود اہل وطن کی اپنی اپنی سوچ اور نظریات ہیں کوئی کسی کو پسند اور کسی سے نفرت یا نہ پسند کرتا ہے اور اس پسند اور نہ پسنددیدگی کا معیار اور نظریہ مختلف ہوتا ہے بعض واقات ایسا ہوتا ہے ایک فرد کے ہم بلا وجہ حامی یا مخالف بن جاتے ہیں جبکہ اُس فرد نے کسی کو نقصان یا فائدہ نہیں پہنچایا ہوتا بس لوگ سُنی سُنائی باتوں پر کان دھرکے مفروضہ پر اپنی اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں جبکہ وہ فردعملی زندگی میں میں اچھے یا بُرے کردار کامرتکب ہوا ہے یا ہو سکتا ہے۔پھر وہی بات۔مدعی لاکھ بُرا چاہے کیا ہوتا ہے۔وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔جناب آصف علی زرداری کے دوسری بار صدر منتحب ہونے پر بعض افراد کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن وطن عزیز کی غالب اکثریت اُنہیں مفاہمت کا بادشاہ اورایک منجا ہوا سیاستدان تصور کرتی ہے اسی لئے تو ملک کے مایہ ناز صحافی جناب مجید نظامی مرحوم نے اُنہیں مرد حر کا خطاب دیا تھا پھر جب وہ پہلی بار صدر پاکستان منتحب ہوئے تھے تواُنہوں نے ملک وقوم کی خاطر اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو تقویض کر دیے تھے اور مخترمہ بے نظیر کی شہادت کے موقع پر۔پاکستان کھپے۔کا نعرہ لگا کر ایک سچے اور محب وطن ہو نے کا ثبوت دیکر دشمنان پاکستان کی سازش کو خاک میں ملا دیا تھا۔ اگر ہم اپنے پیارے وطن کی سیاست اور سیاسی کھلاڑیوں کا تجزیہ کریں توہم دیکھتے ہیں کہ اسوقت مملکت خدا داد میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف،پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی جو حصول اقتدار کی جنگ میں اپنے تقریروں اور جلسوں میں عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دیکھا رہے ہیں جن کے پورے ہونے کی شاید ہماری زندگی میں تو اُمید نہیں لیکن انتحابات میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل تھیں۔ اتفاق سے اس بارایسے انتحابات ہوئے ہیں کہ ہر کوئی جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں ہی اس الیکشن کو متنازعہ اوردھاندلی شدہ قرار دے رہے ہیں پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس بار عوام نے کسی ایک سیاسی جماعت کو بھی واضیح اکثریت سے مینڈیٹ نہیں دیا کہ وہ اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوبس وہی پرانی روش ایکدوسرے پرالزمات کے تیروں اورگولوں کی بارش برسا کر دل کی بھراس نکال رہے ہیں اسوقت تحریک انصاف کو اللہ تعالیٰ نے موقع فراہم کیا تھا کہ وہ کسی ایک ساسی جماعت سے اتحاد کر کے حکومت بنا سکتی تھی لیکن بانی تحریک انصاف شاید ان دونوں پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد یا مذکرات کیلئے تیار نہ تھے۔پھر وہی ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے آپس میں اتحاد کرکے وطن عزیز میں قومی حکومت بنا لی ہے جس میں صدارت کا منصب پاکستان پیپلز پارٹی کو دیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان کا منصب پاکستان مسلم لیگ کو دیا گیا ہے اور جناب شہباز شریف کو وزیراعظم پاکستان منتحب کرلیا گیا ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ یہ اتحادی حکومت اب عوامی مسابئل۔معشت کی تنزلی، مہنگائی،بے روزگاری اور وطن عزیز میں لاقانونیت جیسے مسائل کا تدارک کرنے کیلئے کیا حکمت یا پالیسی اختیار کرتی ہے کیونکہ ان بنیادی مسائل کے جن کو قابو میں کرنا بلا شُبہ ایک بہت بڑاچیلنج ہے اگر اتحادی حکومت ان مسائل کا مُثبت حل تلاش کر لیتی ہے توپھرعوامی غضب سے بھی بچا جا سکتا ہے اور حکومت کی کامیابی کی بھی اُمید کی جا سکتی ہے۔تحریک انصاف اگرسابقہ روش چھوڑ کر اور مزید غلطیوں سے گریز کرکے اسمبلی میں حزب اختلاف کا مُثبت کردارادا کرتی ہے تو حکومت کوٹف وقت دے سکتی ہے۔میری رب کائنات کی بارگاہ میں دعا ہے مملکت خداداد پرماہ صیام کی برکتوں نزول فرمائے۔ ہمارے سیاستدانوں اور مقتدرہ اداروں کو ملک وقوم کی سلامتی اور ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں