0

۔،۔ مکرو ریا کے نقاب ۔طارق حسین بٹ شانؔ-،۔

0Shares

۔،۔ مکرو ریا کے نقاب ۔طارق حسین بٹ شانؔ-،۔

چند مخصوص خاندانوں کی گہن زدہ اجارہ داری سے لوگ تنگ آ چکے ہیں وہ انھیں نشانِ عبرت بنانا چاہتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ انھیں عوام کے سروں پر مسلط کر دیتی ہے۔وہی گھسے پٹے چہرے ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے ہماری جان نہیں چھوڑ رہے بلکہ زبردستی اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہو جاتے ہیں۔ان سے راہِ نجات ووٹ کی پرچی سے ممکن ہے لیکن اس کا جو حشر آٹھ فروری کو ہوا وہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں ہے۔ آٹھ فروری بد دیانتی کی انتہا تھا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے والی کوئی اور نہیں بلکہ اس ملکِ خداداد کا طاقتور ادارہ تھا۔عوام نے کرپٹ خاندانوں سے اپنی نفرت کا کھلا اظہار اپنے ووٹ سے کیالیکن صاحبانِ عقلِ کل نے زورِ بازو سے ان کی رائے کو کوڑا دان میں ڈال کر شکست خوردہ افراد کو فاتح قرار دے کر ملک و ملت کی بھاگ ڈور ان کے ہوس پرستانہ ہاتھوں میں تھما دی۔کیا اس سے بڑا ظلم بھی کوئی اور ہو سکتا ہے؟ مینڈیٹ چھیننے کے خفیہ معاملات پچھلی کئی دہائیوں سے ڈھکے چھپے انداز میں چل رہے تھے تا آنکہ الیکشن ۴۲۰۲؁ میں سارا ڈرامہ زمین بوس ہو گیا۔ ملک کا بچہ بچہ فارم (۵۴) اور فارم (۷۴) کی اندرونی کہانی سے واقف ہو چکا ہے اور اسے سمجھ آ گئی کہ ریل کا کانٹا کہاں سے بدلا جاتا ہے؟ایک عجب رسوائی ہے جو طاقتور حلقوں کا مقدر بنی ہوئی ہے کیونکہ خفیہ ووٹ پر ڈاکے کا خفیہ راز فاش ہو چکا ہے۔اسے چھپانے کی جتنی بھی کاوشیں کی جا رہی ہیں وہ اتنی ہی زیادہ واشگاف ہو کر عوامی نگاہوں میں حیرت و استعجاب کا باعث بن رہی ہیں۔عوام ایک دوسرے سے سوال کناں ہیں کہ یہ کونسا نظام ہے جس میں راتوں رات نتائج بدل دئے جاتے ہیں اور غلیظ انسان خوشبوؤں میں نہلا دہلا کر ایوانوں میں سجا دئے جاتے ہیں۔پاکستا ن کے استحصال پسند کرپٹ خاندانوں کے نام سے لوگوں کو گن آتی ہے کیونکہ وہ لوٹ مار اور لوٹ کھسوٹ کا دھندا کرتے ہیں اور ملکی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ان کے خلاف نفرت کا سکیل دن بدن اونچائی کی جانب محوِ پرواز ہے لیکن اتنی باریک سی بات بھی صاحبانِ اختیار کے زرخیز ذہن میں جگہ نہیں بنا رہی۔بات تو بہت سیدھی اور سادہ ہے لیکن مفاد پرست ٹو لے نے اسے الجھا دیا ہے۔ اگر تاریخ میں ہر بات طاقت سے ہی سر انجام پا رہی ہوتی تو عراق کے حکمران بخت نصر کا خاندان آج بھی حکمران ہوتا؟ فرعون نیل کے پانیوں میں نشانِ عبرت نہ بنتا،سائرسِ اعظم، سکندرِ اعظم، تیمور لنگ،سیزر، اور مغلِ اعظم تاریخ کے پنوں تک محدود نہ ہو تے۔ نوشیرواں عادل کے عدل و انصاف کے انداز اور اجلی روائت نے تاریخِ انسانی کی بے داغ پیشانی کوجس طرح منور کیا تھا اس کی روشنی ہی انسانیت کی اصل جستجو ہے۔اسلام عدل و و صداقت اور امن و آشتی کا دین ہے لیکن اس کے پیرو کاروں نے ذاتی اقتدار کی خاطر عدل و انصاف کا جس بری طرح سے خون روا رکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کربلا کا سانحہ کیا یہ بتانے کیلئے کافی نہیں ہے کہ اقتدار کے بھوکوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے جان نثا روں کے ساتھ ظلم و بربریت کا جو بے رحمانہ اور شرمناک بازار گرم کیا تھاانسانیت اس پر سدا شرمندہ رہے گی۔ اقتدار بھی گیا اور ذلت و رسوائی کا استعارہ بھی بننا پڑ ا جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلا م آج بھی حریت و جانبازی کا استعارہ ہیں کیونکہ صداقت کا صلہ ایسا ہی دلکش اور حسین ہوتا ہے۔جان تو جاتی ہے لیکن جو اجر ملتا ہے وہ صدیوں قائم و دائم رہتا ہے۔(ہدیہ ِ خون اگر نہ دیتے حسین۔،۔ سارا عالم دھواں دھواں ہوتا) ۔،۔نو فروری کو من پسند نتائج کا اعلان بھی ہو گیا،مرضی کے وزراء نے حلف بھی اٹھا لیا لیکن گاڑی چلنے کا نام نہیں لے رہی کیونکہ جمہور کی روح اس پورے نظام سے غائب ہے۔مردہ جسم میں جب روح نہیں ہو گی توجسم حرکت کیسے کرے گا۔؟ بانجھ زمین سے گل و لالہ نہیں اگا کرتے۔ ثمرات کی برو مندی کیلئے زمین کا زر خیز ہونا ضروری ہوتا ہے۔بیج،کھاد پانی اور دوسرے لوازمات بعد میں شمار کئے جاتے ہیں جبکہ زمین کی زرخیزی بنیادی عنصر کی حامل ہو تی ہے۔کچھ بھی نہ ہو تو زرخیز زمین سے خود بخود خود رو جھاڑیاں اور سبزہ اگ آتا ہے جو زمین کی زرخیزی کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔ووٹ ہی کسی ملک کی زرخیزی کی علامت ہو تا ہے۔ووٹ ہی اعلی اوصاف سے مزین قیادت کا انتخاب کرتا ہے جس سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔سنگا پور کے وزیرِ اعظم لی اور ملا ئیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد،پاکستان کے ذولفقار علی بھٹو ووٹ کی طاقت سے اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور پھر ملک کی تقدیربدل کر رکھ دی۔ عوام کی رائے کو جب نظر انداز کردیا جائے گا توپھر بنجر زمین سے پھول وپھل کی خواہش کسی چٹیل اور بنجر زمین سے سونا اگلنے کے مترادف ہو گی۔پورا سیاسی نظام عوامی رائے پر کھڑا ہوتا ہے لیکن اگر عوامی رائے کو ہی قتل کر دیا جائے تو پھر نظام خود بخود مردہ ہو جاتا ہے۔ ایسے نظام سے سرفراز بگٹی،محسن نقوی،فیصل واڈا اور عبدالوحید کاکڑ جیسے نام نہاد ہیرے ہی سامنے آتے ہیں جن میں کوئی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ وہ کٹھ پتلیاں ہو تی ہیں جو دوسروں کے اشا روں پر ناچتی ہیں۔عوامی ووٹ ایک اعتماد کا نام ہو تا ہے جو انسان کے اندر اپنی صلاحیتوں کو بر وئے کار لانے کا زینہ ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کی خوشیوں اور فلاح کے لئے اپنے شب و روز وقف کر سکے۔،۔عوام اور منتخب قیادت کی باہمی محبت ہی کسی ملک کی ترقی اور خوشخالی کی نوید بنتی ہے۔،۔میری ذاتی رائے ہے کہ انسان ہر شہ سے متاثر ہو تا ہے۔ہوا کی نزاکت سے،سردی کی لہر سے،گرمی کی شدت سے،بہار کی رنگینی سے، بارش کی بوندوں سے،پانی کے بہاؤ سے، موسیقی کی سروں سے،شاعری کی لطافت اور آہنگ سے اور دانشوروں کے اقوال سے۔اچھی رائے،دلیل،فکر، منطق، فلسفہ اور نظریہ انسا نوں کے اندر نئی سوچ کو جنم دیتا ہے اور اسے آگے بڑھنے کیلئے روشنی مہیا کرتاہے۔ہزار ہا سالوں کی دانش سے آج کا انسان اب بھی غیبی توانائی حاصل کرتا ہے۔سقراط،افلاطون، کوپر نیکس،گلیلیو،ارسطو،امام غزالی،ابنِ سینا،ابنِ رشد،ابنِ عربی، منصور حلاج، مولانا روم، شکسپئیر،کارل مارکس ہیگل،حافظ شیرازی،اقبال،گوئٹے،دانتے،آئزک نیوٹن اور آئن سٹائن،جیسی مہان ہستیوں کے افکار آج بھی انسا نوں کے اندر فکرو عمل کی شمعیں روشن کرتے ہیں اور انسانیت کو آگے بڑھنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے جسے سدا جاری رہنا ہے۔ایک انسان کے بعد دوسرے انسان نے علم و فن کی شمع کو تھام لیناہوتا ہے تا کہ انسانیت اپنے ارتقائی سفر سے بھٹکنے نہ پائے۔مشکل مقام ضرور آتے ہیں لیکن انسانیت سچ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔سچ سورج کی کرنوں کی مانند بالکل شفاف اور واضح ہو تا ہے اور اپنے ہونے کی خود گواہی ہوتا ہے۔خارج میں اس کی دلیل تلاش نہیں کی جاتی بلکہ اس کے الفاظ ہی سچائی کا اعلان ہو تے ہیں۔ انسان نے پلٹ کر نہیں دیکھنا بلکہ اس نے اپنے سفر کو اس شاہراہ پر ڈالنا ہے جس کا انجام ترقی اور انصاف کا حصول ہو تا ہے۔وہ بھول بھلیوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ الہامی راہنمائی میں اس جانب محوِ سفر ہو جاتا ہے جس کا حتمی نتیجہ انسان کی تکریم اور اس کا تقدس ہو تا ہے۔ اس تقدس کو نو فروری کوجس طرح پامال کیا گیا ہے وہی پاکستان کی تباہ حالی کی داستان ہے۔جھوٹ،منافقت، بد یانتی، بے ایمانی،وعدہ خلافی، حسد، مکاری،ریا کاری اور جبری سوچ نے جو گل کھلائے اس نے پاکستان کو لہو لہان کررکھا ہے۔کوئی ہے جو انصاف، برابری اور حق و صداقت کاپرچم تھام کر سینہ سپر ہو جائے اور عوام کوشفاف اور آئینی منزل کا پتہ دے اور یہ جو جبری حربوں سے نتائج بدلے جاتے ہیں اس کی راہ روکے۔پاکستان مکاری کا نہیں سچائی کا طلبگار ہے۔ (اتریں گے چہروں سے اک روز آخر۔،۔ مکرو ریا کے یہ سارے نقاب)۔،۔

 

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں