0

۔،۔ہائے زندگی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی-,-

0Shares

۔،۔ہائے زندگی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں دو دن چھٹی کے بعد جب اپنے آفس آیا تو بہت سارے لوگ مجھ سے ملنے کے لیے پہلے سے اِدھر ادھر کھڑے تھے میں تیزی سے اپنی نشست کی طرف بڑھا تاکہ رش کم کر سکوں جب اپنے کمرے کی طرف تیزی سے جب بڑھ رہا تھا تو ایک خوبصورت جوان لڑکی برقعے میں ملبوس میری طرف آتی ہے میں اُس کا پریشان چہرہ دیکھ کر رک جاتا ہوں تو وہ میرے کان کے قریب سر گوشی کر تے ہوئے کہتی سر آپ سے بہت سارے لوگ ملنے آئے ہیں بلکہ لوگ مجھ سے پہلے سے آئے ہو ئے ہیں لیکن میں بہت زیادہ ایمرجنسی میں ہوں آپ خدا کے لیے پہلے مُجھ سے مل لیں کیونکہ اگر میرا مسئلہ حل نہ ہوا تو میں یہاں آپ سے ملنے کے بعد خود کشی کر لوں گی میرے پاس موت کو گلے لگانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے آپ خد اکے لیے میری بات سنیں اور میرا مسئلہ حل کریں میں کو شش کرتا ہوں جو پہلے آیا ہے اُس کو پہلے جلدی مل لوں اِس کے لیے اکثر میرا ملازم بھی مدد کر تا ہے کہ سر یہ فیملی صبح سب سے پہلے آئی ہے لہذا آپ برائے مہر بانی پہلے اِن سے مل لیں اور پھر میں پہلے آئے خاندان سے مل کر دن کا آغاز کر تا ہوں لیکن میرے سامنے طویل قامت خوبصورت لڑکی جس نے چہرے پر نقاب نہیں کیا تھا لیکن برقعے میں ملبوس تھی مدد مدد کر تی کھڑی تھی میں نے اُس کی طرف دیکھا اور بولا جی بیٹی بتاؤ میں تمہاری کیامدد کر سکتا ہوں تاکہ تم خود کشی جیسے خوفناک ارادے کو ترک کر کے زندگی کے سلسلے کو جاری رکھ سکو تو اُس نے اطراف میں کھڑے لوگوں کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھا اور بولی سر لوگ میری درد بھری داستان سن لیں گے آپ الگ ہو کر پلیز میری بات سنیں میں نے غور سے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا تو واقعی اُس کے چہرے آنکھوں میں موت کے سائے لرزاں تھے وہ چلتی پھرتی لاش کی مانند میرے سامنے کھڑی تھی خوف اور کسی حادثے کی وجہ سے اُس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑتی جارہی تھی میرے غور سے دیکھنے پر بولی سر میں معافی مانگتی ہوں آپ کو صبح صبح پریشان کر رہی ہوں لیکن سر میرا اِس بھری دنیا میں کوئی نہیں ہے نہ ماں نہ باپ نہ بہن نہ بھائی اِ س بے رحم ظالم دنیا میں آسمان کے نیچے میں اکیلی ہوں میرا کوئی نہیں ہے میں نے کل بھی خود کشی کی کو شش کی تو ہاسٹل میں میری ساتھی نے مجھے آپ کے پاس بھیج دیا کہ تم خود کشی سے پہلے صرف ایک بار پروفیسر صاحب سے مل لو شاید کوئی راستہ نکل آئے تو میں ساری رات جاگ کر آج آپ کے سامنے کھڑی ہوں جبکہ مجھے بھی یہ یقین ہے کہ آپ بھی میری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے میری مدد اللہ تعالی کے علاوہ کوئی بھی نہیں کر سکتالیکن دنیا امید پر قائم ہے اِس لیے میں ایک آخری امید لیے آپ کے سامنے کھڑی ہوں شاید کوئی راستہ نکل آئے اور میں خود کشی جیسی حرام موت سے بچ جاؤں لڑکی کی بے چینی سے لگ رہا تھا وہ واقعی کسی بڑے حادثے یا غم کا شکار ہو چکی ہے یا نادانی میں کو ئی حماقت یا پھر جوانی کے منہ زور سیلاب کے سامنے جوانی کی حماقت کر تے ہوئے کہیں عشق کی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے کسی غلط منزل کی طرف آگئی ہے لہذا میں اُس کو لے کر بینچ کی طرف بڑھ گیا چلتے چلتے میں نے پو چھا بیٹی خیر ہے یہ تم خود کشی کیوں کرنا چاہتی ہوں یہ تو حرام موت ہے اللہ تعالی نے سختی سے خود کشی سے منع کیا ہے زندگی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا قیمتی تحفہ ہے لوگ اِس کی حفاظت کے لیے دن رات کو شش کرتے ہیں جبکہ تم خود کشی کر کے اِس قیمتی چیز سے ہاتھ دھونا چاہتی ہو تو اُس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا اور پھر دائیں بائیں خوف سے دیکھا اور بولی سر میرے پیٹ میں چار ماہ کا بچہ ہے لیکن جس کا یہ بچہ ہے وہ پتہ نہیں کہاں بھاگ گیا ہے اُس نے مجھے ہر جگہ سے بلاک کر دیا ہے میں پچھلے کئی دن سے پاگلوں کی طرح اُس کو تلاش کر رہی ہو ں لیکن اُس کا کہیں بھی پتہ نہیں ہے وہ اپنے اوپر ظلم کا بتا رہی تھی کہ اُس نے شادی کا وعدہ کر کے میرے پیٹ میں یہ بم رکھ دیا ہے اب شادی سے بھی انکاری ہے اور اس کو ضائع کرنے میں بھی میری مدد نہیں کر رہا سر میرے پیٹ میں بچے نے اب حرکت شروع کر دی ہے میں نے بہت کو شش کی لیکن میرا بازوکسی نے نہیں پکڑا تاکہ میں اِس سے جان چھڑا سکوں اور نہ ہی میرے پاس پیسے تھے کہ مہنگے ہسپتال میں جا کر اِس سے جان چھڑا سکتی سر خدا کے لیے میری مدد کریں کہ وہ مجھے بلاک سے ہٹائے مجھ سے رابطہ کرکے نکاح کر ے تاکہ میں خود کشی نہ کروں اُس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا میں نے پہلے اُس کے چہرے پھر پیٹ کی طرف پھر یتیم بچی بے آسرا یہ سوچ کر میرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سرمیں چکر اور لگا جیسے جسم کرچی کرچی ہو کر بکھرنے لگاہے اور سانس کی نالی پر بھاری پتھر سا آگیا ہے میں گرنے لگا تھا کہ قریبی بینچ پر گر سا بلکہ ڈھیر سا ہو گیا آسمان کی طرف منہ کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگا میں سمندر کے غم میں غوطے کھا رہا تھا درد دکھ کرب تکلیف گولے بن کر میرے چاروں طرف پھٹ رہے تھے ہر چیز ماتمی لباس میں ملبوس دکھی اور میں درد دکھ سے بے حال کہ میں اِس کی مدد کیسے کروں ایسا کیس میرے پاس پہلی بار نہیں آیا تھا پہلے بھی بہت سارے کیس آچکے ہیں لیکن اِن لڑکیوں کے ساتھ والدین دوست یا کوئی رشتہ دار یا دوست ہو تا تھا جبکہ یہ بے آسرا لڑکی دربدر خشک پتے کی طرح اڑتی پھر رہی تھی مجھے پریشان دیکھ کر لڑکی بھی پریشان ہو گئی تھی وہ بھی سامنے پڑے صوفے پر گر گئی تھوڑی دیر سر جھکائے بیٹھی رہی پھر سر اٹھا کر بولی سر میں معافی مانگتی ہوں کہ آپ کو بھی پریشان کر دیا لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا میں آخری کو شش اور امید پر آئی ہوں کہ شاید وہ واپس آجائے مجھ سے نکاح کر لے اور میں حرام موت سے بچ سکوں یتیم بے بس لاچار لڑکی نے مجھے بھی پریشان کر دیا تھا میں جو روزانہ سینکڑوں لوگوں کو امید حوصلہ دیتا ہوں کہ آپ پریشان نہ ہوں اللہ کوئی راستہ نکالے گا اور آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن جب میں نے لڑکے کا نام تاریخ پیدائش پوچھی اور سارے حالات سنے تو جان گیا کہ لڑکا حرامی بد کردار ہے وہ کبھی بھی اِس سے شادی نہیں کرے گا وہ عیاش چالاک بد کردار ایک یتیم بے آسرا غریب لڑکی سے شادی کیوں کرے گا اُس نے تو سہانے خواب دکھا کہ ایک پردیسی لڑکی جو زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے اِس شہر میں آئی اُس کو اپنی سنہری باتوں میں الجھا یا سہانے خواب دکھائے بد کرداری کر کے بھاگ گیا میں نے پھر بیٹی کے چہرے کی طرف دیکھا تو آنکھوں کے کنارے بہنے لگے میں نے اُس کی ہر حال ہر صورت میں مدد کا فیصلہ کر لیا کہ اُس کو حرام موت سے بچانا ہے (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں