۔،۔ شجرِ ممنوعہ ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔
قائدِ ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گو رنر جنرل غلام محمد نے جس طرح آمرانہ طرزِ حکومت اختیار کیا اس سے پاکستان کی ریاست جمہوریت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے پنجوں میں چلی گئی۔فیلڈماشل جنرل محمد ایوب خان نے جس طرح جمہوریت کی شمع گل کی وہ کسی کی دورس نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔دس سالہ آمریت نے جمہوریت پر ایسی کاری ضرب لگائی جس سے یہ ابھی تک سنبھل نہیں پائی۔ قانونِ ایبڈو سے شروع ہونے والا سلسلہ سیاستدانوں کی بے تو قیری لے لئے کافی تھا۔سیاست کو دل کھول کر رسوا کیا گیا حالانکہ اس وقت کی قیادت ایمان داری کا پیکر تھی۔وہ ساری کی ساری نرسری جسے سیاست سے بے دخل کیا گیا وہ قیامِ ہاکستان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مخلص سپاہیوں پر مشتمل تھی اور آزادی کی جنگ میں انھوں نے بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ ایک خلاء پیدا کیا گیا جسے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے من پسندیدہ افراد سے پر کیا۔قوم کے معمار زندانوں کی نذر ہو گے جبکہ بیوو کریٹ ملکی زمام کے امام بنے۔ کیسے کیسے لوگ اس ملک کے مالک، بنا دئے گے۔وہ کام جسے عدو کے ہاتھوں سر انجام پانا تھا اپنے ہی غم گساروں کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوا۔جمہوریت کا جنازہ پڑھا گیا اور ایک ایسی کھیپ تیار کی گئی جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر محوِ رقص رہتی تھی۔سیاست کا میدان سیاستدانوں کیلئے شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا جس سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ذولفقار علی بھٹو نے عوامی حاکمیت کا نعرہ بلند کیا تو فیلڈماشل جنرل محمد ایوب خان کا دس سالہ آمرانہ اختیار اپنے انجام کو پہنچا لیکن اقتدا ر جنرل یحی خان کے حوالے کر کے سٹیبلشمنٹ کی سپر میسی کو مزید ہوا دے دی۔دسمبر ۰۷۹۱ کے انتخابات سے ملک دو لخت ہو گیا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے پھر بھی کوئی سبق نہ سیکھا۔ذولفقار علی بھٹو کو اقتدار دینا ایک مجبوری تھی جسے وقتی طور پر پورا کیا گیالیکن پا نچ سالوں کے بعد اس قومی ہیرو کو حوالہ ِ دار کر دیا گیا۔اس کی سزائے موت کے خلاف دنیا بھر کی اپیلوں کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا گیا اور ذاتی اقتدار کے دوام کی خاطر جنرل ضیا الحق نے ایک انتہائی مخلص،ذہین اور قوم پرست راہنما کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔ قوم خود سوزیاں کرتی رہی زندانوں کی اذیتیں سہتی رہی لیکن کسی کو قیدیوں ں کے دلوں کے دھڑکنوں کی صدائیں سنائی نہ دیں۔قوم روتی رہی،فریاد کرتی رہی لیکن سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا گیا کیونکہ ریاست کی ساری طاقت جنرل ضیا الحق کی مٹھی میں بند تھی۔دس سال کا عرصہ جمہوری آزادیوں کی جنگ میں ضا ئع ہو گیا اور ملک غربت کی دلدل میں دھنستا چلاگیا۔،۔جمہوریت کی علامت محترمہ بے نظیر بھٹو کو سات سالوں تک جیلوں کی اذیتوں کو سہنا پڑا۔ جنرل ضیا الحق کا طیارہ ہوا میں شعلوں کی نذر ہوا تو دھاندلی شدہ انتخابات کے بعد اقتدارکڑی شرائط کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوا لے کر کے اسٹیبلشمنٹ نے ایک دفعہ پھرسیاست دانوں کو زیرِ پا رکھنے کا اعلان کر دیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوری جدو جہد میں زندانوں کی پرواہ نہ کی۔اپنے معصوم بچوں کے ساتھ جیلوں کے باہر انتظار کی کوفت سے گزر کر انھوں نے ثابت کیا کہ وہ جمہوریت کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔اسٹیبلشمنٹ،مذہبی جماعتوں اور شریف برادران نے بی بی شہید کے خلاف جس سفاکیت کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے سدھارے ہوئے گھوڑے میاں محمد نواز شریف نے جب ووٹ کو عزت دو کا اعلان کیا تو ۲۱ اکتوبر ۹۹۹ کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔عدالت نے میاں محمد نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنا کر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو دوام بخشا جس سے میا ں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ۶۰۰۲ میں میاں محمد نواز شریف سے میثا قِ جمہوریت کا معاہدہ کرکے سب کو حیران کر دیا۔جنرل پرویز مشرف کیلئے یہ معاہدہ کسی بلیک وارنٹ سے کم نہیں تھا لہذا اس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔۷۲ دسمبر ۷۰۰۲ میں نہتی لڑکی محترمہ بے نظیر بھٹو جمہوریت کا علم بلند کرتے کرتے اپنی جان کی بازی ہار گئیں۔اس بے رحم قتل کے بعد جنرل پرویز مشرف کا اقتدارڈانواڈول ہو گیا اور اسے انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ رخصت ہونا پڑالیکن مقامِ افسوس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اقتدار کو قبضہ میں رکھنے کا جذبہ پھر بھی ماند نہ پڑا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو گل کھلائے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔اب اسی علم کو اسٹیبلشمنٹ پوری قوت سے اٹھائے ہوئے ہے۔میاں محمد نواز شریف زبان بندی کا چلہ کاٹ رہے ہیں جبکہ ملک کی سب سے مقبول آواز عمر ان خان جیل کی بلندو بالا دیواروں کے پیچھے پابندِ سلاسل ہے۔انھیں سزاؤں پر سزائیں دی جا رہی ہیں لیکن وہ ہیں کہ ہر سزا کے بعد نئے جذبے اور جوش کے ساتھ جمہوریت کی جنگ لڑنے کیلئے سرپر کفن باندھ کر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔عدلیہ نے جس جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے اس سے عدلیہ کی ساری تو قیر خاک میں مل گئی ہے۔ عدلیہ کا کام توآئین و قانون کی سر بلندی کو قائم رکھنا ہو تا ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ عدلیہ خود آئین و قانون کا قتل کر رہی ہے اور اسے اپنی بے تو قیری کاحساس نہیں ہو رہا۔،۔الیکشن کسی بھی ملک میں عوامی رائے کا پیمانہ ہوتے ہیں۔ریاست عوامی رائے پر عمل کر کے اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ڈولنڈ ٹرمپ کی مثال ہمارے سامنے ہے لیکن پاکستان میں الیکشن چرائے جاتے ہیں اور من پسندجما عت کو اقتدار منتقل کیا جاتا ہے۔۸ فروری ۴۲۰۲ کے انتخابات میں جیتے والی جماعت کیلئے زندانوں کے اندھیرے مقدر بنے ہو ئے ہیں اور وہ جھنیں عوام نے مسترد کر دیا تھا وہ اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہیں جو کہ جمہوریت کا کھلا قتل ہے۔سوال یہ ہے کہ اس ملک میں اندھی طاقت کا راج ہو گا یا آئین و قانون کا غلبہ ہو گا؟خاندانی جمہوریت نے پاکستان کا چہرہ داغ داغ کر دیا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلی جمہوریت کی جانب پیش قدمی کی جائے اور ملک پر آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔ ۴ اپریل ۹۷۹۱ کو ایک وزیرِ اعظم کو پھانسی دی گئی جبکہ دوسرے وزیرِ اعظم کو ۷۲ دسمبر ۷۰۰۲ کو سر عام قتل کر دیا گیا۔ ایک وزیرِ اعظم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اسے دس سالوں کیلئے جلا وطن کیا گیا۔اب قرعہ عمران خان کے نام نکلا ہوا ہے اور اسے اذیتوں کا نشانہ بنا یا ہوا ہے تا کہ وہ گھبرا کرجلا وطن ہونے پر آمادہ ہو جائے لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔عمران خان کے با جرات انکار نے ہی انھیں عوام کا مجبوب بنا دیا ہے۔اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہے لیکن عوامی رائے سے زیادہ طاقتور نہیں۔اب فیصلہ ہوجائیگا کہ پاکستان میں جمہوریت کا مقام کیا ہو گا؟ ہم اس وقت میڈیا کے دور میں زندہ ہیں جس میں ۴ اپریل ۹۷۹۱ کی تاریخ نہیں دہرائی جا سکتی لہذا بہتر یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اسی میں ان کی عزت اور وقار ہے۔عوام آمریت نہیں جمہوریت کے طالب ہیں۔وہ آزادی اور ووٹ کے تقدس کے علاوہ کسی بھی قسم کے حربے کو قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ ۴۲ نو مبر عہدِ جمہو ریت کا کھلا اظہار تھا لیکن جو شب گزیدہ ہو اسے روشنی نظر نہیں آتی۔وہ اپنی ضد اور انا کا قیدی بن کر حقائق سے نظریں چرا تا ہے جو قومی یکجہتی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔،۔