-,-یہ سانحہ نہیں, ریاستی لاپرواہی ہے- فوزیہ مغل-,- 0

-,-یہ سانحہ نہیں, ریاستی لاپرواہی ہے- فوزیہ مغل-,-

0Shares

-,-یہ سانحہ نہیں, ریاستی لاپرواہی ہے-فوزیہ مغل-,-

گزشتہ ہفتے سوات میں آنے والا سیلابی ریلے میں 80 کے قریب سیاح و مقامی معصوم لوگوں کی ہلاکت یہ۔ مقامی ریاستی مشینری کی مکمل ناکامی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ دل دہلا دینے والی ویڈیوز میں ایک ہی خاندان کیکئی افراد کو بے بسی سے چیخ و پکار کرتے ہوئے بچوں کو گود میں لیے مدد کے لیے فریاد کرتے دیکھا گیا مگر کوئی بھی ان کی فریاد سننے نہ آیا۔ غیر تربیت یافتہ ریسکیو ٹیم کئی گھنٹوں بعد پہنچیں جب کہ پانی سب کچھ بہا کر لے جا چکا تھا۔یہ سانحہ صرف ایک گھرانے تک محدود نہیں رہا درجنوں مقامی مزدور دکاندار اور رہائشی بھی پانی کی زد میں آ کر جاں بحق یا لاپتہ ہو گئے۔مگر سب سے بڑا سوال وہی ہے جو ہر سانحے کے بعد اٹھتا ہے کہ ریاست کہاں تھی۔خیبرپختونخوا میں ایک ہی جماعت گزشتہ 13 سال سے حکومت کر رہی ہے دعوے بلند نعرے جذباتی اور تقاریر پُر اثر مگر عملی میدان میں کارکردگی انتہائی مایوس کن۔اس صوبے کے گورنر اور وزیراعلیٰ اکثر پنجاب کی ترقیاتی منصوبوں پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر خود اپنے صوبے میں ریسکیو جیسے بنیادی تحفظ کیاہم ترین محکموں کی حالت بدترین ہے۔اس حادثے نے یہ ثابت کر دیا کہ خیبرپختونخوا میں حکومت صرف کاغذوں میں ہے زمین پر نہیں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ کچھ سوشل میڈیا صارفین اور اس ناکام حکومت کے اندھے حمایتی متاثرہ خاندان کو ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔وہ وہاں کیوں گئے؟سیلفیاں بنانے گئے تھے؟خطرہ نظر انداز کیوں کیا؟یہ باتیں درحقیقت مقامی حکومت کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہیں۔ ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ جن کے بچے بوڑھے خواتین و نوجوان ہماری صوبائی حکومت کی ناکامی کی نذر ہو گئے ان ہی متاثرہ خاندان سے سوال کر رہے ہیں۔اگر سیاحت کے مقامات محفوظ نہیں تو انہیں بند کیوں نہیں کیا گیا؟اگر وہ جگہ خطرناک تھی تو سیل کیوں نہ کی گئی؟اگر بارش اور سیلاب کا خدشہ تھا تو پیشگی وارننگ کیوں جاری نہ ہوئی؟اگر ریسکیو تربیت یافتہ عملہ موجود نہ تھا تو سیاحوں کو اجازت کیوں دی گئی؟یہ ریاست کی ذمے داری ہے عوام کی نہیں۔ریسکیو عملے پر انگلی اٹھانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان لوگوں کو ایسے سانحات سے نمٹنے کی مکمل تربیت ہی نہیں دی گئی ان کے پاس نہ سامان ہے نہ جدید آلات اور نہ وہ رہنمائی جس کی بنیاد پر وہ بروقت جانیں بچا سکیں۔یہ ریسکیو اہلکار نہیں سسٹم ناکام ہے۔وہ نظام جو صرف دھرنوں احتجاجی تقاریر اور سیاسی شعبدہ بازی پر مرکوز تھا اور ہے مگر عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے نہیں۔یاد رہے جب پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے تو ڈینگی کی وبا جیسی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے نہ صرف فوری ایکشن پلان بنایا گیا بلکہ ہسپتالوں لوکل گورنمنٹ اور ایمرجنسی اداروں کے مابین مربوط رابطہ بحال رکھنے کے لیے فیصل آباد سے لے کر راجن پور تک ایک ردعمل کا مربوط نظام قائم کیا گیا تھا شہباز شریف خود فیلڈ میں نکلتے روزانہ جائزہ لیتے اور اجلاس کرتے اور ایکٹیویٹی رپورٹ دیکھتے یہی وجہ تھی کہ پنجاب نے نہ صرف ڈینگی پر قابو پایا تھا بلکہ WHO جیسے اداروں نے بھی اس ماڈل کی تعریف کی۔ یہی طرزِ حکمرانی قوموں کو بچاتا ہے پوسٹرز یا بیانات نہیں۔اس المناک حادثے کی فوری عدالتی تحقیقات کی جائیں۔غفلت برتنے والے اہلکاروں کو فوری معطل کر کے ان کے خلاف کارروائی ہو۔خیبرپختونخوا کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کو پنجاب کے ماڈل کی طرز پر فعال اور خودکار بنایا جائیاور ساتھ ہی اظہارِ افسوس سے آگے بڑھ کر اب پنجاب حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اب صرف خیبرپختونخوا حکومت کی نااہلی پر ماتم کرنیکا وقت نہیں۔ متاثرہ خاندان کا تعلق چونکہ پنجاب سے ہے اس لیے اب یہ پنجاب حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ مریم نواز کی اخلاقی اور انتظامی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرہ خاندان سے براہِ راست رابطہ کرے ان کو فوری مالی امداد قانونی معاونت اور نفسیاتی سپورٹ فراہم کرےاس سانحے کو ایک ریاستی مسئلہ کے طور پر لے کر دیگر صوبوں کے ساتھ بین الصوبائی حکمت عملی ترتیب دے
یہ وقت سیاست سے بالاتر ہو کر انسانی جانوں کے تحفظ اور قومی یکجہتی کاہے پنجاب حکومت اگر چاہے تواس واقعیکو ریلیف انصاف اور اصلاحات کا ایک قابلِ تقلید ماڈل بنا سکتی ہے جیسا شہباز شریف کے دور میں ہم دیکھ چکے ہیں۔میں خود اس حادثے کی ویڈیوز دیکھ کر جس ذہنی جذباتی اور قلبی تکلیف سے گزری وہ شاید صرف میں اور میرا رب جانتا ہے۔ جرمنی میں موجود بروقت میڈیکل سروسز نے مجھے سنبھالا سہارا دیا اور اب میں تاخیر سے سہی مگر اپنا دل ہلکا کرنے اور ان بے آوازوں کی آواز بننے کے قابل ہوئی ہوں یہ کالم صرف الفاظ نہیں ایک تڑپ ہے ایک صدا ہے کہ ہم جاگ جائیں اور پھر کبھی کوئی ماں بہن یا بچے بے بسی سے ہماری انکھوں کے سامنے ایسے حادثے کا شکار نہ ہو۔ میں دکھی دل کے ساتھ یہ کالم ان معصوم روحوں کے نام کرتی ہوں جنہیں محض اس لیے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا کہ وہ ایک ایسے صوبے میں سیر کرنے گئے تھے جہاں کی صوبائی حکومت صرف سوشل میڈیا یا تقریری میدان میں پیش پیش ہے یہ سانحہ نہیں بلکہ قوم نے ریاستی لاپرواہی کی ایک خوفناک قیمت چکائی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں